کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 180
نہیں۔‘‘[1] شیخ البانی تحریر کرتے ہیں: ’’فَإِنْ لَمْ یَتَمَکَّنْ مِنْ اسْتِلَامِہِ لَمْ تُشْرَعِ الْإِشَارَۃُ إِلَیْہِ بِیَدِہٖ۔‘‘[2] ’’پس اگر وہ اسے چھو نہ سکے، تو اس کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرنا ثابت نہیں۔‘‘ مذکورہ بالا حدیث [د] میں بھی حجر اسود اور رکن یمانی کو نہ چھونے کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف حجرِ اسود کی طرف اشارہ کرنے کا ذکر ہے، رکنِ یمانی کی طرف اشارے کا کوئی ذکر نہیں۔[3] د: رکن یمانی کو چھونے والے ہاتھ کو چومنے کے متعلق دو آراء ہیں۔ امام نووی لکھتے ہیں: ’’وَیُقَبِّلُ یَدَہُ الَّتِيْ اسْتَلَمَہُ بِہَا، وَیَکُوْنُ تَقْبِیْلُہَا بَعْدَ الْاِسْتِلَامِ بِہَا۔ ہٰذَا ہُوَ الصَّحِیْحُ وَالَّذِيْ قَالَہُ جَمْہُوْرُ أَصْحَابِنَا۔‘‘[4] ’’جس ہاتھ سے اسے چھوئے اس کو چوم لے۔ اسے چومنا اس کے ساتھ چھونے کے بعد ہو۔ یہی صحیح بات ہے، جو کہ ہمارے جمہور اصحاب نے کہی ہے۔‘‘
[1] ملاحظہ ہو: حج و عمرہ اور زیارت ص ۷۱۔۷۲۔ [2] مناسک الحج والعمرۃ ص۲۰۔ [3] احناف کی بھی یہی رائے ہے، البتہ شوافع کے نزدیک نہ چھونے کی صورت میں اشارہ کرے۔ (ملاحظہ ہو: الحج والعمرۃ في الفقہ الإسلامی للدکتور نور الدین عتر ص۸۸)۔ [4] مناسک الحج والعمرۃ ص ۲۳۶۔۲۳۷۔