کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 179
’’خرقی نے کہا: وہ اسے (رکنِ یمانی کو) بوسہ دے۔ احمد سے صحیح روایت یہ ہے، کہ وہ اسے بوسہ نہ دے اور یہی اکثر اہل علم کی رائے ہے۔‘‘ علامہ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں: ’’وَأَمَّا تَقْبِیْلُہُ فَلَمْ یَصِحَّ عَنِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَلَا یُسَنُّ۔‘‘[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے چومنا ثابت نہیں، اس لیے ایسا کرنا مسنون نہیں۔‘‘ امام نووی لکھتے ہیں: ’’وَیَسْتَحِبُّ أَیْضًا أَنْ یَسْتَلِمَ الرُّکْنَ الْیَمَانِيَّ، وَلَا یُقَبِّلُہُ۔‘‘[2] ’’رکن یمانی کو چھونا بھی مستحب ہے (لیکن) اسے بوسہ نہ دے۔‘‘ ج: بعض علماء نے بیان کیا ہے، کہ رکن یمانی کے چھونے کو چھوڑنے پر اس کی طرف اشارہ کرکے گزرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز لکھتے ہیں: ’’اگر رکن یمانی کو چھونا مشکل ہو، تو اس کو چھوڑ دے اور طواف کرتا رہے۔ اس کی طرف نہ اشارہ کرے اور نہ ہی اس کے سامنے آکر (اللہ اکبر) کہے، کیونکہ ہمارے علم کی حد تک یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت
[1] المرجع السابق ۵/۲۲۷۔ [2] مناسک الحج والعمرۃ ص۲۳۶۔ شیخ ابن باز اور شیخ البانی نے بھی یہی بات تحریر کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: حج، عمرہ اور زیارت ص ۷۱، ومناسک الحج والعمرۃ ص۲۰)۔ بعض علماء نے اسے بوسہ دینے کو مستحب قرار دیا ہے، لیکن اس بارے میں ان کی پیش کردہ حدیث ضعیف ہے۔ (ملاحظہ ہو: مسند أبي یعلی، رقم الحدیث ۲۷۸۔ (۲۶۰۵)، ۴/۴۷۲۔ ۴۷۳۔حافظ ہیثمی نے اس حدیث کے متعلق تحریر کیا ہے: ’’اسے ابویعلی نے روایت کیا ہے اور اس میں عبد اللہ بن مسلم بن ہرمز (راوی) ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد ۳/۲۴۱)؛ نیز ملاحظہ ہو: ہامش مسند أبي یعلی ۴/۴۷۳۔