کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 178
’’طَافَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم بِالْبَیْتِ عَلٰی بِعِیْرٍ۔ کُلُّمَا أَتَی عَلَی الرُّکْنِ أَشَارَ۔‘‘[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی پر بیت (اللہ) کا طواف کیا۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرِ اسود کے پاس پہنچتے، تو اس کی طرف اشارہ کرتے۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ’’أَشَارَ إِلَیْہِ بِشَيْئٍ کَانَ عِنْدَہُ وَکَبَّرَ۔‘‘[2] [اس (حجر اسود) کی طرف کسی چیز سے اشارہ کرتے اور [اللہ اکبر] کہتے۔] مذکورہ بالا حدیثوں کے حوالے سے چار باتیں: ا: پہلی حدیث میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طواف کے دوران حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق رکن یمانی کو چھونا مستحب ہے، لیکن سنت نہیں۔ امام محمد[3]اور جمہور علماء کے نزدیک اسے چھونا سنت ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوتے تھے۔[4] اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ علامہ ابوبکر کاسانی نے قلم بند کیا ہے: ’’وَلَا خَلَافَ أَنَّ تَقْبِیْلَہُ لَیْسَ بِسُنَّۃٍ۔‘‘[5] ’’اسے چومنے کے سنت نہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ ب: رکنِ یمانی کو بوسہ دینا ثابت نہیں۔ علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں: ’’قَالَ الْخَرْقِيْ، یُقَبِّلُہُ، وَالصَّحِیْحُ عَنْ أَحْمَدُ أَنَّہُ لَا یُقَبِّلُہُ، وَہُوَ قَوْلُ أَکْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ۔‘‘[6]
[1] صحیح البخاري، کتاب الحج، باب من أشار إلی الرکن إذا أتی علیہ، رقم الحدیث: ۱۶۱۲، ۳/۴۷۶۔ [2] المرجع السابق، جزء من رقم الحدیث ۱۶۱۳، ۳/۴۷۶۔ [3] ملاحظہ ہو: بدائع الصنائع ۲/۱۴۷۔ [4] جیسا کہ مذکورہ بالا پہلی تین احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ [5] بدائع الصنائع ۲/۱۴۷۔ [6] المغنی ۵/۲۲۶۔ حافظ ابن حجر بھی لکھتے ہیں، کہ یہ جمہور کی رائے ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۴۷۵)۔