کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 167
کرتے ہیں:
’’طَافَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم فِيْ حَجَّۃِ الْوِدَاعِ عَلٰی رَاحِلَتِہِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ لِیَرَاہُ النَّاسُ، وَلِیُشْرِفَ، وَلِیَسْأَلُوْہُ، فَإِنَّ النَّاسَ غَشَوْہُ۔‘‘[1]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں بیت (اللہ) کا طواف اور صفا و مروہ (کی سعی) سواری پر کی، تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ ان (کی دسترس) سے بلند ہوجائیں اور تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (مسائل) دریافت کرسکیں، کیونکہ لوگوں نے آپ کے گرد بھیڑ کر رکھی تھی۔‘‘
۲: امام ابوداؤد نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے،
’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم قَدِمَ مَکَّۃَ، وَہُوَ یَشْتَکِيْ، فَطَافَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ۔‘‘[2]
’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ (مکرمہ) تشریف آوری کے وقت بیمار تھے، اس لیے آپ نے سواری پر طواف کیا۔‘‘
امام نووی سب سے پہلی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار ہونے کی علت کا بیان ہے۔ یہ بھی بیان کیا
[1] صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم الحدیث: ۲۵۵۔(۱۲۷۳)، ۲/۹۲۷۔
[2] سنن أبي داود، کتاب المناسک، باب الطواف الواجب، جزء من رقم الحدیث ۱۸۷۸، ۵/۲۳۴۔۲۳۵۔ حافظ منذری اس کے متعلق لکھتے ہیں، کہ اس کی سند میں [یزید بن ابی زیاد] ہے، جس کی بیان کردہ روایت حجت نہیں۔ (ملاحظہ ہو: عون المعبود ۵/۲۳۵)۔ شیخ البانی نے بھی اسے [ضعیف] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ضعیف سنن أبي داود ص۱۸۶)؛ البتہ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو بلا تنقید نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے، کہ امام بخاری نے اسی حدیث میں بیان کردہ بیماری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار ہوکر طواف کرنے کا سبب ٹھہرایا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۴۹۰)۔