کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 154
۲: دوسری آسانی یہ ہے ، کہ مخطیء اور ناسی (غلطی اور بھول کر) شکار کرنے پر محرم پر کوئی قربانی ، کفارہ یا روزے نہیں، کیونکہ ان میں سے کسی ایک کے واجب ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے [عمداً] کی شرط لگائی ہے۔ [1]
۳: تیسری آسانی یہ ہے ، کہ اس غلطی کرنے والے کو اختیار دیا گیا ہے ، کہ وہ تینوں کاموں میں سے جو چاہے ، کرے اس کے مال دار یا تنگ دست ہونے یا قوی یا بیمار ہونے سے اس رعایت پر کوئی اثر نہ ہو گا۔[2]
[1] طبری کی ایک روایت کے مطابق حضرات ائمہ احمد، سعید بن جبیر، ابو ثور اور داود کی یہی رائے ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بھی یہی رائے ہے ، کہ متعمد، مخطیٔ اور ناسی تینوں کا حکم ایک جیسا ہے۔ ہر حالت میں سزا ہو گی۔ یہ رائے حضرت عمر ، ابن عباس رضی اللہ عنہم ، طاؤس ، حسن ، ابراہیم ، زہری، مالک، شافعی اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۶؍۳۰۷۔۳۰۸) شیخ شنقیطی پہلے قول کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ فکر و نظر اور دلیل کے اعتبار سے یہ قول بہت زیادہ قوی ہے۔‘‘ (أضواء البیان ۲؍۱۴۴)۔
[2] جمہور علمائے اُمت کی یہی رائے ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی گئی ہے ، کہ وہ قتل کیے جانے والے شکار کے مثل قربانی دے، اگر ایسا نہ کر سکے ، تو مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس کے لیے یہ بھی ممکن نہ ہو ، تو روزے رکھے۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں، کہ اس قول پر یہ اعتراض کیا گیا ہے ، کہ یہ آیت کے ظاہری معنی کے مطابق نہیں۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۶؍۳۱۵)حافظ ابن جوزی تحریر کرتے ہیں ، کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دونوں اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ جمہور فقہاء پہلی رائے کے قائل ہیں۔ (ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۲؍۴۲۶)۔