کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 153
عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ} [1] [اے ایمان والو! جب تم احرام کی حالت میں ہو ، تو شکار کو قتل نہ کرو اور تم میں سے جو اسے جان بوجھ کر قتل کرے، تو جو اس نے چوپاؤں میں سے قتل کیا ، اس کی مثل بدلہ ہے، جس کا فیصلہ تم میں سے دو انصاف والے کریں اور اسے قربانی کے جانور کی حیثیت سے کعبہ پہنچایا جائے گا یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کا کفارہ ہے یا اس کے برابر روزے رکھنا ہے ، تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے۔ اللہ تعالیٰ نے گزرے ہوئے کو معاف کر دیا اور جو شخص دوبارہ[ایسے] کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس سے بدلہ لیں گے اور اللہ تعالیٰ سب پر غالب انتقام لینے والے ہیں۔] آیتِ کریمہ کے حوالے سے دو باتیں: ا: شکار کرنے کی درج ذیل تین حالتیں ہوتی ہیں: ۱: متعمّد: اپنے احرام کو یاد رکھتے ہوئے جان بوجھ کر شکار قتل کرے۔ ۲: مخطی ء: اس کا ہدف شکار کے علاوہ کوئی اور چیز ہو، لیکن نشانہ اسے ہی لگے۔ ۳: ناسی: اس کا ہدف شکار ہو، لیکن اسے محرم ہونا یاد نہ رہے۔ ب: خشکی کے شکار کی سزا میں آسانیاں: آیت شریفہ میں ذکر کردہ تین آسانیاں درجِ ذیل ہیں: ۱: اس بارے میں پہلی رعایت یہ ہے ، کہ اپنے احرام کو یاد رکھتے ہوئے قصداً اس غلطی کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کے حج و عمرہ کو باطل نہیں کیا ، صرف آیت میں بیان کردہ سزا پر اکتفا کیا گیا ہے۔[2]
[1] سورۃ المآئدۃ ؍ الآیۃ ۹۵۔ [2] امام مجاہد کے نزدیک ایسے شخص کا حج باطل ہو جائے گا۔ ان کے خیال میں آیت میں بیان کردہ سزا قصداً شکار کرنے والے اس شخص کے متعلق ہے ، جسے اپنا محرم ہونا یاد نہ رہے۔ امام مجاہد کی رائے پر یہ اعتراض ہے ، کہ بھول کر غلطی کرنے پر سزا نہیں ہوتی اور یہاں تو سزا دی جارہی ہے۔ اس کی تاکید آیت کریمہ کے آخری حصے (لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ) [تاکہ وہ اپنے کیے کی سزا چکھے] سے بھی ہوتی ہے۔ امام مجاہد اپنی رائے کی تایید میں ارشادِ ربانی : {وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ} [اور جو شخض دوبارہ ایسے کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لیں گے]سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ اس دفعہ شکار کرنے پر سزا نہیں، دوبارہ کرنے پر سزا ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے ، کہ پہلی دفعہ کرنے پر سزا ہے، جیسا کہ آیت میںبیان کیا گیا ہے اور دوسری دفعہ کرنے پر بھی ہے، البتہ وہ سزا پہلی پر مستزاد یا اس سے مختلف ہو گی۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۶؍۳۱۷؛ و تفسیر أبي السعود ۴؍۸۱ ؛ وأضواء البیان ۲؍۱۴۲ )۔