کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 124
اچھی طرح دھو دے۔ ان کاموں کی بنا پر اس پر کوئی دم واجب نہ ہو گا۔ ذیل میں اس بارے میں دو حدیثیں ملاحظہ فرمائیے: ا: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت یعلٰی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ [1]میں اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ تھے، تو ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَیْفَ تَرَی فِيْ رَجُلٍ أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ، وَہُوَ مُتَضَمِّخٌ بِطِیْبٍ؟‘‘ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں، کہ جس نے عمرے کا احرام اس حالت میں باندھا، کہ اس کے کپڑے خوشبو میں رچے بسے ہوں؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی۔۔۔ پھر یہ حالت ختم ہوئی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَیْنَ الَّذِيْ سَأَلَ عَنِ الْعُمْرَۃِ؟‘‘ ’’وہ شخص کہاں ہے ، جس نے عمرے کے متعلق سوال کیا؟‘‘ آدمی کو لایا گیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اِغْسِلْ الطِّیْبَ الَّذِيْ بِکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، وَانْزَعْ عَنْکَ
[1] جعرانہ: جیم کی زبر اور راء کی تشدید اور تخفیف دونوں کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ طائف اور مکہ کے درمیان ایک چشمہ ہے، البتہ مکہ سے نسبتاً قریب ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقام پر غزوۂ حنین کے مالِ غنیمت کو تقسیم فرمایا اور یہیں سے عمرے کا احرام باندھا۔ (ملاحظہ ہو: معجم مااستعجم من أسماء البلاد والمواضع ، ’’الجعرانۃ ‘‘ ، ۲؍۳۸۴۔۲۸۵ ؛ و معجم البلدان، ۳۱۴۲۔ ’’الجعرانۃ‘‘ ۲؍۱۶۵۔