کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 113
جمہور علماء کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے ، کہ جو بکری میسر ہو۔[1]
ط: علماء کی اکثریت کے نزدیک اس قربانی کا کرنا واجب ہے ، لیکن امام مالک کی رائے میں یہ واجب نہیں۔ علامہ صنعانی نے اسی رائے کو پسند کیا ہے ، کیونکہ ہر روکے جانے والے کے پاس قربانی نہیں ہوتی۔ [2]
ہ: (وَعَلَیْہِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ) [اس کے ذمہ آئندہ سال حج ہے۔]۔ یہ اس شخص کے متعلق ہے ، جس نے پہلے حج کا فریضہ ادا نہ کیا ہو ، نفلی حج سے روکے جانے والے پر[میسر آنے والی قربانی] کے علاوہ اور کچھ نہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر ایک مرتبہ حج کے فرض ہونے کی خبر دی ہے۔ [3]
گفتگو کا خلاصہ یہ ہے ، کہ حج اور عمرے کی آسانیوں میں سے ایک یہ ہے، کہ احرام کو جاری رکھنے میں پیش آنے والی رکاوٹ کی صورت میں غیر مشروط احرام باندھنے والا میسر آنے والی قربانی کرے اور احرام کھول دے اور اگر حج فرضی ہو، تو آئندہ سال حج کر لے۔
۱۱۔ قربانی نہ پانے والے [محصَر] کے لیے آسانی:
جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، کہ حج سے روکا ہوا شخص (محصَر) میسر آنے والی قربانی دے کر احرام کھول سکتا ہے۔ اگر اسے قربانی میسر نہ ہو ، تو پھر کیا کرے؟
اس بارے میں دو آراء :
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر۱؍۲۴۸۔۲۴۹۔
[2] ملاحظہ ہو: سبل السلام ۲؍۴۳۶۔
[3] ملاحظہ ہو: المحلی ۸۸۳ مسألۃ ۷؍۳۰۹۔ یہی رائے امام مالک اور امام شافعی کی ہے۔ حضرات ائمہ نخعی، مجاہد، شعبی اور عکرمہ کی رائے میں نفلی حج سے روکے جانے والے پر بھی آئندہ سال حج کرنا لازم ہے۔ (ملاحظہ ہو: معالم السنن ۲؍۱۸۹)، لیکن راجح رائے امام مالک اور امام شافعی ہی کی معلوم ہوتی ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔