کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 111
’’جس کسی کو کسرآئی، [1]یا بیمار ہوا یا (پاؤں میں کچھ لگنے سے) لنگڑا ہوا، تو اس کے لیے (احرام سے نکلنا) حلال ہوا اور اس کے ذمہ آئندہ سال حج ہے۔‘‘ عکرمہ نے بیان کیا: ’’ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے روبرو بیان کی ، تو ان دونوں نے فرمایا: ’’ صَدَقَ‘‘[2] ’’انہوں نے سچ کہا ہے۔‘‘[3] ان دونوں دلیلوں کے متعلق پانچ باتیں: ۱: احرام کو جاری رکھنے کی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ پر آیت ِشریفہ میں بیان کردہ حکم چسپاں ہوتا ہے، خواہ وہ دشمن کی شکل میں ہو یا بیماری کی شکل میں یا کسی اور طریقے سے۔ [4]یہی رائے ابن مسعود، ابن زبیر رضی اللہ عنہم ، علقمہ، سعید بن مسیب
[1] یعنی جسم کے کسی حصے میں چوٹ وغیرہ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ [2] المسند، رقم الحدیث ۱۵۷۳۱، ۲۴؍۵۰۸۔۵۰۹ ؛ و سنن أبي داود، کتاب المناسک، باب الإحصار ، رقم الحدیث ۱۸۶۰، ۵؍۲۲۰؛ و جامع الترمذي ، أبواب الحج، باب الذي یہل بالحج فیکسر أو یعرج ، رقم الحدیث ۹۴۴، ۴/۸۔۹؛ و سنن النسائي ، کتاب مناسک الحج، فیمن أحصر بعدو ، ۵؍۱۹۸۔۱۹۹؛ و سنن ابن ماجہ ، أبواب المناسک ،المحصر ، رقم الحدیث ۳۱۱۴، ۲؍۱۹۴، والمستدرک علی الصحیحین ، کتاب المناسک ، ۱؍۴۸۲۔۴۸۳۔ الفاظِ حدیث سنن ابن ماجہ کے ہیں۔ امام ترمذی نے اسے [حسن] ، امام حاکم نے [ امام بخاری کی شرط پر صحیح] قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] اور شیخ ارناؤط اور ان کے رفقاء نے المسند کی (سند کو شیخین کی شرط پر صحیح) کہا ہے ۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ، ۴/۹؛ والمستدرک ۱؍۴۸۳؛ والتلخیص ۱؍۴۸۳؛ و صحیح سنن ابن ماجہ ۲؍۱۹۰؛ و ہامش المسند ۲۴؍۵۰۹)۔ [3] یعنی انہوں نے حدیث درست بیان کی ہے۔ [4] جیسے راستہ بھول جانا، زادِ راہ ختم ہوجانا یا گم ہوجانا یا پاسپورٹ اور ٹکٹ وغیرہ کا گم ہو جانا۔