کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 109
بعض کی رائے میں یہ عمرے کے احرام سے حلال ہونے کے بارے میں ہے، اس کا حج سے تعلق نہیں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں، کہ ضباعہ رضی اللہ عنہا کا قصہ اس بات کی تردید کرتا ہے۔[1] و: مشروط احرام کے فائدوں کے متعلق علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں: ’’اس شرط کے دو فائدے ہیں: ’’ پہلا یہ کہ جب اسے دشمن یا بیماری یا خرچہ نہ ہونے وغیرہ کی کوئی رکاوٹ پیش آئے، تو اس کے لیے احرام کھولنا جائز ہو گا۔ دوسرا یہ کہ احرام کھولنے پر اس کے ذمے کوئی دم یا روزہ نہ ہو گا‘‘[2] شیخ البانی نے ایک تیسرا فائدہ بھی تحریر کیا ہے ، کہ اس پر حج آئندہ سال کرنے کی ذمہ داری نہ ہو گی ، البتہ اگر یہ حج فریضہ ہے ، تو پھر اسے حج کرنا ہو گا۔ [3] سعودی عرب کے مشہور عالم شیخ محمد بن صالح العثیمین لکھتے ہیں: ’’ وَفَائِدَۃُ الْاِشتِرَاطِ أَنَّہُ إِذَا مُنِعَ مِنْ إِتْمَامِ نُسُکِہِ تَحَلَّلَ مَجَّانًا: أَيْ لَیْسَ عَلَیْہِ فِدْیَۃٌ وَلَا قَضَائٌ۔‘‘ [4] ’’شرط کرنے کا فائدہ یہ ہے ، کہ جب اسے حج پورا کرنے سے روکا گیا، تو وہ مفت میں حلال ہو جائے گا، یعنی نہ اس پر فدیہ ہو گا اور نہ ہی قضا۔‘‘ گفتگو کا حاصل یہ ہے ، کہ محرم کسی رکاوٹ کے اندیشے کے پیش نظر مشروط احرام باندھ سکتا ہے۔ رکاوٹ کی حالت میں احرام کھولنے پر اس کے ذمے نہ فدیہ ہو گا، اور نہ ہی قضا ، البتہ فرضی حج کی صورت میں رکاوٹ کے ختم ہونے اور استطاعت برقرار رہنے پر حج کرے گا۔[5]
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۴؍۹۔ [2] ملاحظہ ہو: المغني ۵؍۹۲۔۹۳۔ [3] ملاحظہ ہو: مناسک الحج والعمرۃ ص ۱۵۔ [4] فتاوی ابن العثیمین ۲۲؍۲۸ منقول از: جامع المناسک ص ۷۹۔ نیز ملاحظہ ہو: حج، عمرہ اور زیارت للشیخ ابن باز (اُردو ترجمہ) ص ۴۹۔۵۰۔ [5] یعنی اس چھوڑے ہوئے حج کے بدلے میں حج کرنا۔