کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 9
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا تصادم حکومت وقت کے ساتھ ہوا۔ اپنی مشرک قوم کو شرک کی حقیقت سمجھانے کے لئے موقع پا کر سرکاری خانقاہ میں گھس گئے اور بڑے بت کے علاوہ تمام بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا‘ جب لوگوں کو علم ہوا تو آپ کو بادشاہ کے دربار میں طلب کیا گیا اور پوچھا گیا
”ابراہیم! کیا تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟“
آپ نے جوب میں ارشاد فرمایا
”یہ سب کچھ معبودوں کے سردار نے کیا ہے، ان ٹوٹے ہوئے خداؤں سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔“ پھر مزید فرمایا” لوگو! کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کر رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر۔ افسوس ہے تم پر اور تمہارے معبودوں پر جن کی تم عبادت کر رہے ہو، اللہ کو چھوڑ کر‘ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟“ (سورة الانبیاء ، آیت نمبر22؍23؍26؍27)
اس موقع پر بتوں کا نہ بول سکنا‘ نفع و نقصان نہ پہنچا سکنا ایک ایسی کھلی حقیقت تھی جس کا انکار ممکن نہ تھا، لہٰذا دوسرا سوال یہ پوچھا گیا ”پھر تمہارا رب کون ہے؟“ آپ نے جواب دیا ”میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔“ تب بادشاہ نے جواب دیا ”زندگی اور موت تو میرے اختیار میں ہے۔“ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً ارشاد فرمایا ”اچھا تو (میرا) اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا۔“یہ (دلیل) سن کر کافر (بادشاہ) ششدر رہ گیا۔ (سورة البقرہ،آیت نمبر 258) اس مدلل اور مسکت جواب پر غور کرنے کی بجائے یہ شاہی فرمان جاری کیا گیا۔”جلا ڈالو اس کو اور مدد کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔“
حکومت کا یہ ظالمانہ فیصلہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عقیدہ توحید سے منحرف نہ کر سکا آپ پہاڑوں کی سی استقامت اور بلندی کے ساتھ اپنے عقیدہ پر ڈٹے رہے۔ وہ ایک موحد جس کے ساتھ نہ کوئی لاؤ لشکر تھا نہ کوئی جماعت تھی نہ اسے کوئی وسائل حرب و ضرب میسر تھے نہ ہی اس کے پاس کوئی قوت تھی۔ تن تنہا پوری مشرک قوم پر بھاری ثابت ہوا، اسے راستے سے ہٹانے کے لئے پوری قوم حرکت میں آگئی۔ آگ کا الاؤ تیار کرایا گیا اور وہ جو پہلے ہی اپنے مالک حقیقی کے نام پر اپنی جان کے علاوہ ہر چیز قربان کر کے