کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 30
جمرات کو شیطان کہتے ہیں جمرہ عقبہ کو بڑا شیطان جمرہ وسطیٰ کو درمیانہ شیطان اور جمرہ اولیٰ کو چھوٹا شیطان کہا جاتا ہے اور ان جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کنکریاں شیطان کو ماری جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر لوگوں میں ایک ناقابل بیان جنونی کیفیت سی پیدا ہو جاتی ہے۔ لوگ ہلڑبازی‘ شوروغل اور ہنگامہ کرتے ہوئے اور شیطان کو لعن طعن اور گالی گلوچ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور جمرات پر چھوٹے بڑے پتھروں کے علاوہ جوتے تک پھینکتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سامنے ستون کی شکل میں شیطان کھڑا ہے جس کی تذلیل اور رسوائی ہو رہی ہے۔ اولاً: حضرت ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب مذکورہ واقعہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی حیثیت سے دیا گیا ہے۔ کوشش کے باوجود ہمیں اس موقف کے حق میں کوئی مرفوع حدیث نہیں مل سکی، لہٰذا محض حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کی بنیاد پر رمی جمار کو مذکورہ واقعہ سے منسوب کرنا مشکل ہے۔ ممکن ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بات حضرت کعب بن احبار سے سنی ہو جو کہ ایک یہودی عالم تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب! ثانیاً: اگر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اس سے جو بات اخذ کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ رمی جمار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ واقعہ کی یادگار ہے لیکن اس سے جمرات کو شیطان قرار دینے اور جمرات پر رمی کو شیطان پر رمی قرار دینے کا جواز تو پھر بھی ثابت نہیں ہوتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جمرات کو شیطان کہنا اور جمرات پر رمی کو شیطان پر رمی تصور کرنا بالکل غلط اور بے بنیاد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین اور تبع تابعین ائمہ عظام رحمہ اللہ میں سے کسی سے بھی جمرات کے بارے میں ایسا سمجھنا ثابت نہیں۔ رمی جمار کے بارے جو بات صحیح حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح طواف سعی‘ قربانی‘ وقوف عرفات اور وقوف مزدلفہ عبادات ہیں، اسی طرح رمی جمار بھی ایک عبادت ہے[1] جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا ذکر‘ عظمت اور کبریائی بیان کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر کنکری پھینکتے وقت ”اللہ اکبر“ کہنے کا حکم دیا گیا
[1] ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر 179؍180.