کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 29
(ج) روضہ شریفہ: بیشتر لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو روضہ شریفہ کہہ کر پکارتے ہیں حالانکہ وہ دراصل حجرہ شریفہ ہے جو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر ہوا کرتا تھا اور اب اسی جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مقام کو ”روضہ“ کا نام دیا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے درمیان والی جگہ ہے جسے اب سفید سنگ مر مر کے ستونوں سے ممیز کیا گیا ہے اور جہاں ہمیشہ سفید رنگ کے قالین بچھے رہتے ہیں جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: (( مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ )) ”یعنی میرے گھر اور میرے منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔“ (بخاری و مسلم) یہاں بیٹھ کر نماز پڑھنا، تلاوت کرنا اور ادعیہ اذکار اور توبہ استغفار کرنا بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ (د) جمرات اور شیطان: جمرات یا جمار جمرہ کی جمع ہے۔ جمرہ کا مطلب ہے کنکری۔ منیٰ میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر تین ستون تعمیر کئے گئے ہیں جنہیں حاجی دوران حج باری باری سات سات کنکریاں مارتے ہیں اسی نسبت سے ان ستونوں کو جمرات کہا گیا ہے۔ رمی جمار کے بارے میں سب سے زیادہ مشہور بات یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے جارہے تھے تو راستے میں ان تین مقامات پر شیطان نمودار ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی دینے سے روکنے اور بہکانے کی کوشش کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے ہر مقام پر سات سات کنکریاں ماریں اور شیطان ملعون دفعہ ہو گیا لہٰذا اس واقعہ کی یادگار کے طور پر ان مقامات پر کنکریاں پھینکی جاتی ہیں[1] اس واقعہ کے حوالہ سے بیشتر لوگ
[1] رمی جمار کے بارے میں دو موقف اور بھی ہیں ایک یہ کہ رسول اللہ e کی ولادت با سعادت سے چند یوم قبل واقعہ فیل پیش آیا جس میں وادی منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان وادی محسر میں اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے ذریعے چھوٹے چھوٹے کنکر ابرہہ کے لشکر پر پھینکے اور اسے تباہ کر دیا- یہ رمی جمرات اسی واقعہ کی یادگار ہے- دوسرا موقف یہ ہے کہ رمی کا معنی تیر پھینکنا بھی ہے اور جمار کا مطلب متحد اور متفق لوگ بھی ہے‘ لہٰذا حج کے دوران پوری امت مسلمہ کا متحد ہو کر ایک جگہ رمی کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ وہ کفرو شرک کے خلاف عملی جہاد کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں- دونوں باتوں کے حق میں نہ تو کوئی قرآن مجید کی آیت ہے نہ کوئی حدیث اور نہ ہی کسی صحابی کا قول بلکہ خالص ذہنی اختراع ہے‘ لہٰذا دونوں باتوں کو قبول عام حاصل نہیں ہو سکا.