کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 27
آخر میں قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد مبارک بھی پڑھ لیجئے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”جو شخص قربانی کی استطاعت رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے وہ (نماز عید کے لئے) ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔“(مسند احمد) پس اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں بہترین نمونہ ہے کہ وہ دل و جان سے ان کی پیروی اور اتباع کریں۔ بعض غلط العام اصطلاحات (الف) حج اکبر اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس سال یوم عرفہ‘ جمعہ کے روز آئے وہ حج ”حج اکبر“ کہلاتا ہے اور اس کا ثواب عام حج کی نسبت ستر گناہ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے۔9 ہجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ بعد میں سورہ توبہ کی شروع کی آیات نازل ہوئیں جن میں یہ بات بھی ارشاد فرمائی گئی: ﴿ وَ آذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ رَسُوْلُہ ﴾ (3:9) ”اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لئے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہیں۔“ (سورة التوبہ، آیت نمبر3) نزول آیات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ جا کر حج کے موقع پر لوگوں کو یہ اعلان سنادیں۔ یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ 9 ہجری میں یوم عرفہ، جمعہ کے روز نہیں تھا،لیکن قرآن مجید نے اس کے لئے ”حج اکبر“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ 10 ہجری میں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع ادا فرمایا۔ اس سال یوم عرفہ جمعہ کے روز تھا۔10 ذی الحجہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں سے پوچھا ”یہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا ”یہ یوم النحر ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((ھٰذَا یَوْمُ الْحَجّ الْاَکْبَر)) یعنی ”یہ حج اکبر کا دن ہے۔ “(ابو داؤد)