کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 26
بڑھ جاتی ہے۔
مدنی زندگی میں ایک طرف تو بیک وقت 9 گھروں کے اخراجات کا بار گراں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر تھا۔ دوسری طرف کوئی مستقل ذریعہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی حالت ایسی تھی کہ بسا اوقات فاقہ کشی تک نوبت پہنچ جاتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ تشریف لائے ،آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر تین دن رات کبھی سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔“(بخاری) نیز فرماتی ہیں ”ہم پر ایسے مہینے بھی گزرے ہیں جن میں ہم نے گھر میں آگ تک نہیں جلائی ہمارا گزارا صرف پانی اور کھجوروں پر ہوتا سوائے اس کے کہ کہیں سے گوشت (کا ہدیہ) آجاتا۔“ (بخاری)ایسے معاشی حالات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سو اونٹ ذبح کرنے کے لئے وسائل مہیا کرنا، قربانی کی اہمیت کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ ذبح فرمائے تو سارے گوشت کو تقسیم کرنے کا اہتمام نہیں فرمایا، بلکہ ہر اونٹ سے ایک ایک ٹکڑا حاصل کر کے اسے پکوایا اور کھایا جس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کا تقسیم نہ ہو سکنا قربانی نہ کرنے کا جواز نہیں بن سکتا۔ قربانی کا گوشت تقسیم ہو یا نہ ہو استعمال میں آئے یا نہ آئے اس سے قربانی کی اہمیت کسی صورت بھی کم نہیں ہوتی[1] اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک کا۔
﴿ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَ لاَ دِمَاؤُہَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ﴾ (37:22)
”اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے‘ بلکہ تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔“(سورة الحج‘ آیت نمبر 37)
یعنی اللہ تعالیٰ کو گوشت تقسیم ہونے یا نہ ہونے سے غرض نہیں بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کس نے کس نیت اور ارادے سے قربانی کی ہے۔
[1] یاد رہے کہ قربانی کا گوشت تقسیم کرنا فرض یا واجب نہیں اگر کہیں قربانی کا گوشت تقسیم کرنا ممکن نہ ہو یا کسی خاندان کے افراد اتنے زیادہ ہوں کہ وہ سارا گوشت خود استعمال کرنا چاہیں تو ایسا بخوشی کر سکتے ہیں- قربانی کا گوشت عزیز و اقارب اور مساکین و فقراء میں تقسیم کرنا باعث اجروثواب ہے لیکن گوشت تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک اپنے لئے‘ ایک عزیز و اقارب کے لئے اور ایک فقراء کے لئے مختض کرنا سنت سے ثابت نہیں.