کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 25
معینہ شکل کو ازخود کسی دوسری من پسند شکل میں بدلا جاسکتا ہے۔ غور فرمائیے! کیا ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت پر خرچ کی گئی رقم ایک فرض نماز ترک کرنے کا کفارہ بن سکتی ہے؟ کیا ہزاروں بیواؤں کی کفالت پر خرچ کی گئی رقم ایک فرض روزہ ترک کرنے کا کفارہ بن سکتی ہے؟ کیا ہزاروں مریضوں کی صحت کے لئے خرچ کی گئی رقم ترک حج کا کفارہ بن سکتی ہے؟ ہر گز نہیں! اسی طرح قومی ترقی اور رفاہ عامہ پر خرچ کی گئی لاکھوں روپے کی رقم اللہ کی راہ میں جانوروں کا خون بہانے کا کفارہ کبھی نہیں بن سکتی۔ ثالثاً قربانی کے معاملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا۔اس سارے عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں فرمائی۔ حتی کہ دوران سفر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا اہتمام فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے‘ عیدالاضحیٰ آگئی اور ہم لوگ ایک گائے میں سات اور ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔“ (ترمذی) حجة الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ قربان فرمائے۔ اونٹ خریدنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصاً یمن بھیجا ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اونٹوں کی اتنی بڑی تعداد نہ مکہ میں دستیاب تھی نہ مدینہ میں اور پھر یوم النحر جیسے مصروف ترین دن میں تریسٹھ اونٹ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمائے۔ اونٹ ذبح کرنے میں یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت فرمائی ہوگی۔ اس کے باوجود اونٹ کو قربانی کی جگہ لانا، اسے باندھنا ،اسے ذبح کرنا اور پھر اسے گرانا اس سارے عمل پر استعمال کیا گیا وقت اگر کم سے کم پانچ منٹ فی اونٹ شمار کیا جائے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام پر پانچ گھنٹے پندہ منٹ صرف فرمائے۔ غور فرمائیے! وہ ذات جو زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ہر وقت امت کو دینی مسائل اور احکام سکھانے میں مصروف رہتی ہو، اس کا ایسے موقع پر جبکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار (یا چالیس ہزار) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مجمع اردگرد موجود تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرمارہے تھے خُذُوْاعَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ یعنی ”مجھ سے حج کے طریقے سیکھو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قربانی کے لیے اتنا طویل وقت نکالنا اور اتنی مشقت اٹھانا یقینا ایک غیر معمولی فعل تھا۔ اس واقعہ کا اگر حیات طیبہ کے معاشی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو قربانی کی اہمیت کہیں زیادہ