کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 24
قربانی کی شرعی حیثیت:
علم دین سے ناواقفیت‘ مادہ پرستانہ ماحول اور ترقی پسندانہ افکار کی یلغار نے مل جل کر مسلمانوں کا ایمان اس قدر کمزور بنا دیا ہے کہ اسلام کی خاطر جذبہ ایثار آہستہ آہستہ مفقود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہی عوامل کے باعث آج ہمارے معاشرہ میں قربانی کی اہمیت کو ختم کرنے یا کم کرنے کی سوچ بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کروڑوں روپے کا سرمایہ محض قربانی پر ضائع کرنے کی بجائے اگر یہی سرمایہ قومی ترقی اور رفاہ عامہ کے کاموں پر صرف کیا جائے تو نہ صرف ملکی ترقی کے لئے سودمند ہو گا بلکہ اجروثواب کا باعث بھی ہو گا۔
اولاً جیسا کہ انہی صفحات میں بتایا گیا ہے کہ قربانی دراصل یادگار ہے اس عظیم الشان تاریخی واقعہ کی جس میں ابوالانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے نوجوان بیٹے کے گلے پر چھری چلا دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبہ فدا کاری کو یوں شرف قبولیت بخشا کہ بیٹے کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھجوا کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان بچالی۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی قربانی کو سنت ابراہیمی قرار دیا ہے ۔(احمد، ابن ماجہ)
غور فرمائیے! اگر اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی قبول فرما لیتا اور اس کے بعد امت کو یہ حکم دیا جاتا کہ ہر مسلمان سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنے پہلے بیٹے کو اللہ کی راہ میں ذبح کرے‘ تو کتنا بڑا امتحان ہوتا اور ہم میں سے کتنے مسلمان ایسے ہوتے جو اس امتحان میں پورے اترتے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور اور عاجز بندوں پر فضل و کرم فرمایا اور اولاد کی جگہ جانوروں کی قربانی قبول فرمالی۔ اس کے باوجود جو لوگ اس قربانی سے بھی راہ فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنے دین اور ایمان کا خود جائزہ لینا چاہئے کہ وہ ایمان کے کس درجے پر فائز ہیں؟
ثانیاً یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قربانی ایک عبادت ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کی جانے والی رقم کو نہ تو ضیاع قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی عبادت کی اس