کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 23
ایک مرتبہ پھر بیت اللہ شریف کا طواف کرتا ہے حالانکہ اس گھر کے کتنے ہی طواف وہ پہلے کر چکا ہے لیکن جب تک حاجی یہ آخری طواف۔طواف وداع۔ نہیں کرتا وہ مکہ مکرمہ سے رخصت نہیں ہو سکتا کیونکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہی ہے۔ مناسک حج شروع سے لے کر آخر تک دیکھئے اور غور کیجئے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حاجی نہ تو زمان و مکان کا بندہ ہے نہ عقل و خرد کا غلام‘ بلکہ وہ بندہ اور غلام ہے صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جس سے مطلوب ہے غیر مشروط اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔بلا چون و چرا پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بلا حیل و حجت اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے! امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران طواف حجر اسود کو مخاطب کر کے فرمایا ”اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا“ یہ کہہ کہ حجراسود کا استلام کیا۔ پھر فرمانے لگے ”اب ہمیں طواف (عمرہ) کے پہلے تین چکروں میں رمل کرنے کی کیا ضرورت ہے رمل تو مشرکوں کو دکھانے کے لئے تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ کر دیا ہے۔‘‘[1] پھر خود ہی فرمایا ”رمل وہ چیز ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چھوڑنا ہمیں پسند نہیں۔“(صحیح بخاری( یہ ہے اتباع سنت کی وہ انقلابی فکر جو مناسک حج ایک با شعور حاجی کے اندر پیدا کر دیتے ہیں جس کا اظہار سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران طواف کیا پس عبادت حج کا اصل مقصد یہ ٹھہرا کہ مسلمان اپنی ساری زندگی اتباع سنت پر استوار کرے اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرز جان بنا کے رکھے۔ اس کے فکرو عمل کا تمام تر دارومدار پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو۔ بہ مصطفی برساں خویش کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اونہ رسیدی تمام بولہبی اوست
[1] یاد رہے ذوالقعدہ 7 ہجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ قضاکے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین مکہ مسلمانوں کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو گئے- ان کا گمان یہ تھا کہ مدینہ منورہ کی آب و ہوا نے مسلمانوں کو کمزور کر دیا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام y کو دوران طواف پہلے تین چکروں میں تیز تیز چلنے کا حکم دیا- اسے رمل کہتے ہیں مشرکین نے مسلمانوں کو یوں چاق و چوبند دیکھا تو کہنے لگے ’’یہ لوگ جن کے بارے میں ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ بخار نے انہیں توڑدیا ہے یہ تو ایسے اور ایسے طاقتور لوگوں سے زیادہ طاقتور ہیں-‘‘ اور یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی سے مشرکین مکہ کی ساری غلط فہمی دور ہو گئی.