کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 21
ہے۔“(بحوالہ بخاری و مسلم) اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ آگ ہے۔“(نسائی) مذکورہ آیات اور احادیث سے باسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کے نیک اعمال اللہ کے ہاں اسی صورت میں باعث اجرو ثواب ہوں گے جب وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہوں گے جو اعمال سنت رسول سے ہٹ کر ہوں گے وہ اللہ کے ہاں غیر مقبول اور مردود ٹھہریں گے۔ مناسک حج پر ایک نظر ڈالئے اور غور فرمائیے کہ یہ مناسک شروع سے لے کر آخر تک کس طرح حاجی کو اتباع سنت کی تعلیم دیتے ہیں۔ 8 ذی الحجہ کو حاجی مسجد الحرام چھوڑ کر ایک بے آباد سنگریزوں بھرے میدان میں خیمہ زن ہو جاتا ہے اگر محض اجر و ثواب ہی مطلوب ہو تو مسجد الحرام میں ادا کی گئی نمازوں کا ثواب منیٰ کے مقابلے میں لاکھوں درجہ زیادہ ہے تو پھر حاجی مسجد الحرام کیوں چھوڑتا ہے؟ اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریقہ یہی ہے۔ مختصر سے قیام کے بعد دوسرے روز یعنی 9 ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد حاجی پھر رخت سفر باندھتا ہے اور صرف چند کلو میٹر کے فاصلہ پر میدان عرفات میں جا ٹھہرتا ہے وہ مٹی وہی سنگریزے وہی آب و ہوا، عرفات میں آخر کون سی ایسی خوبی ہے جو منیٰ میں نہیں؟ پھر لاکھوں انسانوں کا منیٰ کی حدود سے نکل کر عرفات میں جا کر ٹھہرنا اپنے اندر کیا حکمت رکھتا ہے؟ یہی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔ میدان عرفات میں حاجی ظہر کے وقت امام حج کا خطبہ سننے کے بعد نمازیں (ظہر اور عصر) اکٹھی اور قصر کر کے پڑھتا ہے۔ غور فرمائیے وہ حاجی جو دنیا بھر کے سارے کام کاج چھوڑ کر اپنے آپ کو اس لئے فارغ کر کے آیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرے وہ ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ہی وقت میں اکٹھی اور قصر کر کے کیوں ادا کرتا ہے؟ اس لئے کہ اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔ عرفات میں چند گھنٹے قیام کے بعد حاجی پھر اپنا سامان سفر باندھتا ہے اور قریب ہی ایک دوسرے میدان‘ مزدلفہ میں جا کر قیام کرتا ہے عرفات میں حاجی رات کیوں نہیں گزارتا اور مزدلفہ میں کیوں گزارتا ہے؟ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہی ہے کہ عرفات کے سنگریزوں کو غروب آفتاب کے بعد الوداع کہا جائے اور مزدلفہ کے سنگریزوں پر آکر رات بسر کی جائے۔