کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 18
مقام حج یعنی مکہ مکرمہ پہنچنے سے کئی میل پہلے ہی جب حاجی میقات پر پہنچ کر احرام باندھتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی توحید‘ تحمید‘ کبریائی اور عظمت پر مشتمل تلبیہ [1] پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے‘ مکہ پہنچ کر حاجی طواف کا آغاز کرتا ہے تو اسے اللہ کی کبریائی کے کلمات ادا کرنے کا حکم ہوتا ہے حتی کہ طواف کے ہر چکر میں حجر اسود کے پاس آکر اسے یہی کلمات دہرانے ہوتے ہیں۔دوران طواف حاجی کو کثرت سے اللہ کا ذکر تسبیح و تہلیل اور تحمید و تقدیس کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ طواف کے بعد سعی کے لئے صفا کی طرف جانے سے پہلے پھر ایک دفعہ حاجی کو حجر اسود کے سامنے آکر ”بِسْمِ اللّٰہِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم للّٰہُ اَکْبَرُ“ کہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ سعی کے آغاز سے پہلے حاجی کو صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید و تکبیر اور حمدو ثناء کے وہ بہترین کلمات ادا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر ادا فرمائے [2] یہی توحید‘ تکبیر اور حمدو ثناء کے کلمات مروہ پہاڑی پر دھرانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ میدان عرفات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دعا کو بہترین دعا قرار دیا ہے وہ ساری کی ساری عقیدہ توحید کی تعلیم پر مشتمل ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ ﴿ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لاَ شَرِیْکَ لَہ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ”اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہی اسی کی ہے حمد اسی کے لئے سزاوار ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ (ترمذی) قیام مزدلفہ کے دوران اللہ تعالیٰ کو مسلسل یاد کرنے کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ ﴾ (198:2) ” مشعر الحرام (مزدلفہ کی پہاڑی کا نام ہے) کے نزدیک اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس طرح اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے۔ (سورة البقرہ، آیت نمبر198) منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے مسلسل تلبیہ‘ تہلیل‘ تحمید اور
[1] تلبیہ کے مسائل مسئلہ نمبر123 کے تحت ملاحظہ فرمائیں. [2] مذکورہ کلمات مسئلہ نمبر 208کے تحت ملاحظہ فرمائیں.