کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 15
﴿ وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ ﴾ (27:72)
”اے ابراہیم! لوگوں میں حج کے لئے اعلان کردو۔“(سورة الحج،آیت نمبر 27)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا ”اس بے آباد ویرانے سے باہر آبادیوں تک میری آواز کیسے پہنچے گی؟“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اعلان کرنا تمہارا کام ہے اور اسے لوگوں تک پہنچانا ہمارا کام ہے۔“ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ اعلان نہ صرف اس وقت کے زندہ انسانوں تک پہنچا دیا بلکہ عالم ارواح میں تمام روحوں تک بھی یہ آواز پہنچا دی گئی جس جس شخص کی قسمت میں بیت اللہ شریف کی زیارت لکھی تھی اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعلان کے جواب میں ”لَبَّیْکَ“ کہی۔ حج کے تلبیہ کی اصل بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسی اعلان کا جواب ہے۔(ابن کثیر)
جب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ رہے۔ بیت اللہ شریف کے متولی رہے۔ آپ کی وفات کے بعد قبیلہ بنو جرہم کے سردار بیت اللہ شریف کے متولی بنے۔ بنو جرہم کے دور میں ہی دین ابراہیمی میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ متولی حضرات نذرانوں اور ہدیوں کا مال ہڑپ کرنے لگے، چنانچہ قبیلہ بنو خزاعہ نے جدال و قتال کے بعد تولیت کا منصب بنو جرہم سے چھین لیا، لیکن ان کے زمانے میں بگاڑ مزید بڑھتا گیا۔ بیت اللہ شریف بت کدے کی شکل اختیار کر گیا۔ شرک کی انتہاء کا یہ عالم کہ لات، منات، عزیٰ اور ہبل کے بتوں کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بت بھی بنا کر بیت اللہ شریف میں رکھ دئے گئے۔ بنو خزاعہ کے بعد بیت اللہ شریف کی تولیت قریش مکہ کے ہاتھ آگئی۔ قریشی سردار قصی بن کلاب نے خزاعی سردار کی بیٹی سے شادی کر لی جس کے نتیجے میں قریشی داماد کو خزاعی سسر سے کعبہ کی تولیت حاصل ہو گئی۔
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے21 سال بعد تک (یعنی8 ہجری) تک بیت اللہ شرک اور بت پرستی کا مرکز بنا رہا اور طریق جاہلیت کے مطابق مشرک حج کرتے رہے۔ 18ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو بیت اللہ شریف کو بتوں اور تصویروں سے پاک کیا۔9 ہجری میں حج فرض ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیرحج بنا کر بھیجا اور فریضہ حج ،اسلامی شریعت کے مطابق ادا کیا گیا۔ 10 ہجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاکھ چوبیس (یا چالیس) ہزار جان نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں حیات طیبہ کا پہلا اور آخری حج” حجة الوداع“ ادا فرمایا۔