کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 12
کرنے لگیں اور بچہ پیاس کی شدت سے رونے لگا۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا بے چین ہو کر قریب کی پہاڑی ”صفا“ کی طرف بھاگیں کہ شاید وہاں کوئی آدمی نظر آجائے جس سے پانی لے سکیں،کوئی چیز نظر نہ آئی تو اسی پریشانی کے عالم میں دوسری پہاڑی ”مروہ“ کی طرف بھاگیں۔ اسی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر ہوگئے ۔ابھی ”مروہ“ پر ہی تھیں کہ ایک آواز سنی‘ دیکھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ایڑی مارنے سے پانی کا چشمہ وہیں نکل آیا جہاں سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام لیٹے تھے۔ یہ وہی چشمہ ہے جسے آب ”زمزم“ کہا جاتا ہے۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے چشمہ کے گرد منڈیر بنا کر اسے حوض کی شکل دے دی۔ اب سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا اطمینان سے خود بھی زمزم پیتیں اور بچے کو بھی اطمینان سے دودھ پلاتیں۔ لمحہ بھر کے لئے تصور کیجئے کہ لق و دق و صحرا، اکیلی خاتون اور ساتھ چند ماہ کا بچہ، نہ کوئی بات سننے والا نہ سنانے والا، نہ کوئی دلاسہ دینے والا، نہ سہارا دینے والا، پُرہول سناٹا، پہلی رات آئی ہو گی تو کیسے کٹی ہو گی، پھر جب متاع خورد و نوش ختم ہوئی ہوگی، تو اس تنہائی میں ماں کی جان پر ہی بن آئی ہو گی۔ معصوم جگر گوشہ کو بھوک اور پیاس سے روتے دیکھ کر اکیلی ماں کا کلیجہ کٹ گیا ہو گا۔ پریشانی اور اضطراب کے عالم میں بچے کی سلامتی کے لئے مامتا کے ہاتھ والہانہ انداز میں بارگاہ رب العزت میں اٹھے ہوں گے اور پھر اسی مضطربانہ کیفیت میں پانی کی تلاش میں بھاگ نکلی ہوں گی۔ کبھی صفا پر کبھی مروہ پر۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مومنہ بندی کی یہ اضطراری بھاگ دوڑ اس طرح قبول فرمائی کہ اس تمام سعی کو عبادت حج (یا عمرہ) کارکن بنا دیا۔ کچھ مدت کے بعد ایک قبیلہ ”بنو جرہم“ کا ادھر سے گزر ہوا۔ پانی کی سہولت دیکھ کر انہوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے قیام کی اجازت چاہی۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے پانی پر اپنا حق ملکیت تسلیم کرواتے ہوئے اجازت دے دی۔ وقت بڑی تیزی کے ساتھ پر لگا کر اڑتا رہا۔ نوے سالہ بوڑھے باپ کی امیدوں کا سہارا بچپن کی دہلیز سے گزر کر جوانی کی بہاروں سے آشنا ہونے لگا تو قدرت نے اس مرتبہ باپ کے ساتھ بیٹے کا بھی امتحان لینے کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے اکلوتے نوجوان بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔