کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 11
رضابن گئیں اور کہا کہ ”پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔“ اس طرح آپ اپنے اہل و عیال سے نا معلوم عرصہ کے لئے جدا ہو گئے۔ کچھ آگے جا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور ہاتھ پھیلا کر وہ دعا مانگی جس کے اثرات آج ہر مسلمان اس وادی ثمرات و برکات میں پہنچ کر خود دیکھ سکتا ہے۔ ﴿ رَبَّنَا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلاَةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ ﴾(37:14) ”اے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے ۔پروردگار! یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔“(سورہ ابراہیم ، آیت نمبر37) ایسی جگہ جہاں پر حشرات الارض اور جنگلی درندوں کی موجودگی کا امکان تو ہر وقت موجود تھا لیکن کسی غمگسار اور ہمدرد انسان کی موجودگی کا تصور بھی محال تھا۔ جہاں چند دنوں کی خوراک ختم ہونے کے بعد بظاہر غذا حاصل ہونے کے قطعاً کوئی آثار نہ تھے۔ وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اہل و عیال کو تنہا چھوڑ کر اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے ایسی جگہ رہائش اختیار کر کے اللہ پر توکل کا ایسا نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ رہے گا۔ سیدناحضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے اہل و عیال کو اس بے آباد ویرانے میں لے جا کر بسانا بارگاہ ایزدی میں اتنا پسند آیا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے فیصلہ فرمادیا کہ جس شخص پر حج کی عبادت فرض ہو وہ اسی طرح اپنے گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن ہو جس طرح میرا بندہ اپنے گھر سے بے گھر اور اپنے وطن سے بے وطن ہوا اور پھر اس مقام پر پہنچے جہاں ایمان نے شکست دی مادیت پرستی کو‘ عشق نے شکست دی عقل پرستی کو‘ اطاعت الٰہی نے شکست دی اطاعت ِنفس کو‘ محبت الٰہی نے شکست دی محبت عیال کو‘ اور زندگی نے شکست دی موت کو! حضرت ابراہیم علیہ السلام اس لق ودق صحرا میں اپنے اہل خانہ کے لئے جو متاع حیات چھوڑ کر گئے تھے وہ پانی کا ایک مشکیزہ اور چند کھجوریں تھیں جب وہ ختم ہو گئیں تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا بھی پیاس محسوس