کتاب: حج اور عمرہ کے مسائل - صفحہ 10
آیا تھا اب اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے کے لئے بے خطر آتش نمرود میں کود گیا۔ تب زندگی اور موت کے حقیقی مالک کی طرف سے فرمان جاری ہوا۔
﴿ قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلاَمًا عَلٰی اِبْرٰہِیْمَ ﴾ (69:21)
”ہم نے کہا اے آگ !ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا ابراہیم کے لئے۔“(سورة الانبیاء،آیت نمبر69)
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ سے بالکل محفوظ اور مامون باہر نکل آئے۔
اس مشرک قوم کی بد نصیبی ملاحظہ ہو کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود کوئی ایک آدمی بھی آپ پر ایمان نہ لایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہاں سے ہجرت کا حکم دے دیا اور آپ عقیدہ توحید کی خاطر اپنا آبائی وطن ترک کر کے شام کے شہر ”خران“ تشریف لے گئے۔ وہاں سے فلسطین کا سفر اختیار کیا۔ ایک مرتبہ اپنی بیوی حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ مصر تشریف لے گئے ۔بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے بری نیت سے دونوں کو دربار میں طلب کیا۔ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے حضور دعا فرمائی جو قبول ہوئی اور بادشاہ اسی وقت اللہ کی پکڑ میں آگیا۔ جس سے بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ خاتون اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص مقرب بندی ہے،چنانچہ اس نے توبہ کی اور اپنی بیٹی ہاجرہ کو حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں دے دیا۔ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے خود حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کروادیا۔
مصر سے حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس فلسطین تشریف لائے اور اسے اپنی دعوت کا مرکز بنایا۔ اسی(80)سال کی عمرمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے آپ کو ایک بیٹا (حضرت اسماعیل علیہ السلام ) عطا فرمایا۔ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا ابھی تک بے اولاد تھیں۔ اس لئے دونوں بیویاں اکٹھی نہ رہ سکیں لہٰذا آپ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر حجاز تشریف لے آئے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی بیوی اور بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں ٹھہرادیا۔ واپس جانے لگے تو بیوی نے بار بار سوال کیا کہ ”آپ ہمیں اس جنگل بیاباں میں کس کے سہارے چھوڑے جارہے ہیں؟“ اپنی رفیقہٴ حیات اور چند ماہ کے جگر گوشہ سے جدائی کا تصور یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبات میں تلاطم برپا کر رہا ہو گا۔ آپ نے واپس پلٹے اور دیکھے بغیر صرف اتنا جواب دیا ”اللہ کے حکم پر“ تب وہ اللہ کی بندی سراپا تسلیم و