کتاب: حج بیت اللہ اور عمرہ کےمتعلق چند اہم فتاویٰ - صفحہ 21
میرے رب کا پیغامبر آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور کہئے کہ حج کے ساتھ عمرہ کی بھی نیت کرتا ہوں۔‘‘ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ اس بارے میں کوئی نص موجود نہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میرے پاس میرے رب کا پیغامبر آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے، اس سے مراد فرض نماز ہو سکتی ہے اور احرام کی دو رکعتوں کے لیے اسے نص نہیں مانا جا سکتا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض نماز کے بعد احرام باندھنا احرام کے لیے دو رکعتوں کی مشروعیت کی دلیل نہیں بن سکتی ۔ بلکہ دلیل صرف اس امر کی ہے کہ اگر ممکن ہو تو عمرہ اور حج کا احرام نماز کے بعد باندھنا افضل ہے۔ سوال۱۰:اگر حالت احرام میں یا نماز کے لیے جاتے ہوئے مذی یا پیشاب کے قطرے ٹپک جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تو وضو کرے لیکن وضو سے پہلے پیشاب یا مذی سے طہارت حاصل کرنے کے لیے استنجاء کرے۔مذی کی صورت میں آلہ تناسل اور دونوں فوطوں کو دھونا ضروری ہے۔ پیشاب کی صورت میں