کتاب: حج بیت اللہ اور عمرہ کےمتعلق چند اہم فتاویٰ - صفحہ 13
دلائل کے اعتبار سے یہی رائے زیادہ بہتر اور واضح ہے، اس لیے کہ حج اور عمرہ کے دوران سفر کرنے سے متمتع کا حکم ختم نہیں ہوتا ، اور اسے قربانی دینی ہو گی، اس لیے اگر عمرہ کے بعد مدینہ منورہ طائف یاجدہ کا سفر کرتا ہے تو وہ متمتع ہی رہے گا، مفرد اسی صورت میں ہو گا کہ وطن واپس چلا جائے( جیسا کہ حضرت عمر اور ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے)اور پھر میقات سے حج کی نیت کر کے لوٹے ، اس لیے کہ وطن واپسی کے بعد عمرہ اور حج کے درمیان کا تعلق ختم ہو جا تا ہے۔لیکن ایک مسلمان کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ قربانی کرے چاہے وطن ہی کیوں نہ واپس چلا گیا ہو، تاکہ اس اختلاف سے بچا جا سکے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے ہے، یا ان لوگوں کی رائے جو یہ کہتے ہیں کہ مسافت قصر تک سفر کرنے سے قربانی ساقط ہو جاتی ہے۔بہتر یہی ہے کہ سنت نبوی کا پورا التزام کیا جائے اور اگر قربانی کی طاقت نہیں رکھتا تو ایام حج میں تین روزے رکھے اور وطن واپسی کے بعد سات روزے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ(جو عمرہ کے ساتھ حج کی نیت کرے وہ حسب استطاعت قربانی کرے)یہ حکم حج تمتع اور حج قران دونوں