کتاب: حج بیت اللہ اور عمرہ کےمتعلق چند اہم فتاویٰ - صفحہ 10
اسی طرح اگر کوئی شخص حج قران کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوا اور حج کا انتظار کرتا رہا اور احرام نہیں کھولا تو اسے بھی متمتع کہا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
﴿ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ﴾
یعنی جو شخص عمرہ اور حج کی ایک ساتھ نیت کر ےگا ،وہ قربانی کرے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قارن کو متمتع بھی کہا جاتا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہی ثابت ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے:
"تَمَتَّعَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إلَى الْحَجِّ"
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ اور حج کی نیت کی اور تمتع کیا ، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کی نیت کی تھی۔
لیکن بہت سے فقہاء کے نزدیک متمتع وہ ہے جو عمرہ کے بعد احرام کھول دے اور آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے ۔ اور اگر عمرہ و حج کو جمع کر دیتا ہے اور احرام نہیں کھولتا تو وہ قارن ہے۔ بہر کیف اگر مسئلہ واضح رہے تو پھر اصطلاحات کی کوئی زیادہ اہمیت باقی نہیں رہتی۔
تو یہ بات واضح ہو گئی کہ متمتع اور قارن کے مسائل ایک جیسےہیں۔دونوں کے اوپر قربانی واجب ہے اور اگر کوئی شخص قربانی کی طاقت