کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 98
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘ [1]
ابو بکر جصاص نے مزید واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’ جب متعلّم(شاگرد ) کوشش کے باوجود لفظ ’’الأثیم ‘‘ کی صحیح ادائیگی نہ سکا ، تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے طعام الفاجر کہہ کر اسے مفہوم سمجھایا کہ شاید اس طرح اس کے لئے صحیح تلفظ کی ادائیگی آسان ہو جائے۔ لہٰذا مفسرین نے طعام الفاجر کو اصل لفظ کی تفسیر اور متعلّم کو اصل لفظ کے قریب کرنے کی کوشش پر محمول کیا ہے۔‘‘ [2]
جہاں تک آخر میں ذکر کردہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے قول کا تعلق ہے تو امام قرطبی نے اس کا یہ جواب دیا ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سات حروف میں قراء ۃ کی اجازت دی گئی تھی تاکہ آپ اپنی امت کے لئے وسعت اور آسانی پیدا کریں تو آپ نے جبریل علیہ السلام کے ساتھ دور کے مطابق ایک موقع پر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ایک قراء ۃ پڑھائی اور ایک موقع پر جبریل علیہ السلام کے ساتھ دور کے مطابق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دوسری قراء ۃ پڑھائی۔ تو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے قول کوبھی اسی پر محمول کیا جائے گاکہ جب انہوں نے اِِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً وأصوب قیلاپڑھا تو کسی نے کہا: ہم تو ﴿اَقْوَمُ قِیْلًا﴾ [المزمل:۶] پڑھتے ہیں تو جواب دیا: إن أقوم وأصوب وأہیا واحدمطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں بھی مروی ہے۔ اور اگر ہم یہ مان لیں کی کسی نے اپنی مرضی سے یوں پڑھا ہے تو پھرفرمان الٰہی ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:۹) کا معنی باطل ہو جائے گا۔‘‘[3]
نیز ابو بکر الانباری رحمہ اللہ نے اس موقوف روایت کو ناقابل استدلال قرار دیتے
[1] تفسیر القرطبی ۱۶-۱۹۶.
[2] أحکام القرآن ، از جصاص.
[3] تفسیر القرطبی ۱۹-۴۲.