کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 97
القرآن علیہا أنہا معان متفق مفہومہا مختلف مسموعہا لایکون فی شئ منہا معنی وضدہ ولا وجہ یخالف معنی وجہ خلافا ینفیہ ویضادہ کالرحمۃ التی ہو خلاف العذاب وضدہ۔‘‘
’’اس حدیث میں سمیعا علیما ، غفورا رحیما اورعلیما حکیما کے الفاظ سے ان کا مقصد ان حروف کی مثال ( example ) بیان کرنا ہے، جن پر قرآن کریم نازل ہوا تھا اور مقصد اللہ کی طرف سے نازل کردہ ان سبعہ حروف کے درمیان اختلاف کی نوعیت کو واضح کرنا ہے کہ اگرچہ یہ حروف صوتی اعتبار سے مختلف تھے ، لیکن ان کے مفہوم میں کوئی تضاد نہیں تھا۔‘‘ [1]
تو ثابت یہ ہوا کہ اس طرح کی مثالوں سے مقصد اختلاف کی نوعیت کو واضح کرنا ہے ، لہذا ان اقوال سے قرآن مجید میں الفاظ کو اپنی مرضی اور اجتہاد سے بدلنے کی رخصت کشید کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے ابن سیرین کا قول:إنما ھو کقول أحدکم: ھلم و تعال ، وأقبل ’’قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے ،مثلاً ، جس طرح ایک شخص ھلم کی جگہ تعال یا أقبل کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔‘‘ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’وکل ہذا یوضح لک معنی السبعۃ الأحرف۔ ’’ان تمام مثالوں کا مقصد آپ کے لئے سبعۃ کے مفہوم کو واضح کرنا ہے۔‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول طعام الفاجر کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس میں کوئی دلیل نہیں ہے ان جاہل اور گمراہ لوگوں کے لئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کے کسی لفظ کو اس کے مترادف لفظ سے بدلنا جائز ہے۔ کیونکہ اس سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد مفہوم واضح کرکے اپنے شاگرد کو اصل اور صحیح لفظ کے قریب کرنا تھا، تاکہ وہ اس لفظ کی ادائیگی پر قادر ہو سکے جو اللہ کی طرف سے
[1] التمہید ، از ابن عبد البر۸-۲۸۳.