کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 96
کے لئے وقف کیا جائے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾ یہاں وقف ضروری ہے اور اسے ما بعد آیت: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ﴾ کے ساتھ ملانا جائز نہیں ہے۔ ‘‘ [1] اور امام قرطبی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ نزل القرآن علی سبعۃ أحرف ، إنما ھو کقول أحدکم: ھلم و تعال ، وأقبل ’’قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے ،مثلا ً، جس طرح ایک شخص ھلم کی جگہ تعال یا أقبل کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔‘‘میں اس نظریہ کے حاملین کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ وہ قراء ات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسانید کے ساتھ نقل ہوئیں ، ان کے درمیان اختلاف کی نوعیت بعینہٖ ایسی ہے، جو ھلم ، تعال اور أقبل میں ہے۔ یعنی جس طرح الفاظ میں اختلاف کے باوجود ، ان کے معانی میں کوئی فرق نہیں ہے ، بعینہٖ اسی طرح قراء ات متواترہ میں اختلاف کے باوجود ان کے معانی میں کوئی تضاد نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کوئی ایسا لفظ قرآن میں داخل کرنے کی جسارت کرے گا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے ثابت نہیں ہے ، وہ یقینا گمراہ اور دین اسلام سے خارج ہے۔‘‘ [2] اور امام ابن البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أما قولہ فی ہذا الحدیث: سمیعا علیما ، وغفورا رحیما ، وعلیما حکیما ، إنما أراد بہذا ضرب المثل للحروف التی نزل
[1] المکتفی فی الوقف والإبتداء ، ص ۳. [2] تفسیر القرطبی ۱۹-۴۲.