کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 95
’’ امام طحاوی ، قاضی باقلانی ، امام ابن عبد البر نے دعوی کیا ہے کہ یہ رخصت دور اول میں ایک عذر اور مجبوری کے تحت تھی ، جب وہ عذر اور مجبوری ختم ہو گئی ، حفظ ِ قرآن میں آسانی ہو گئی اور ضبط و کتابت کے ذرائع وافر ہوگئے تو یہ رخصت بھی ختم کر دی گئی۔ ‘‘ [1]
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو شامہ کے قول پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’اس پوری بحث کو سمیٹتے ہوئے بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ مترادف الفاظ کے استعمال کی اجازت کسی کی ذاتی پسند و ناپسند پر منحصر قطعا نہیں تھی۔اس کی دلیل عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ میں سے ہر ایک کا یہ قول ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں پڑھایاہے۔‘‘ [2]
اور امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اثر: فَاقْرَء ُوا وَلَا حَرَجَ، ولکن لَا تَختِموا ذکر رحمۃ بِعَذَابٍ، وَلَا ذکر عَذَابٍ بِرَحْمَۃ’’قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ، تم پڑھو ، کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ خیال رہے کہ آیت ِرحمت کا اختتام عذاب سے اور آیت ِ عذاب کا اختتام رحمت کے تذکرہ پر نہ ہو۔‘‘ کا جواب دیتے ہوئے یہ لکھا ہے:
’’یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مکمل تعلیم ہے جو آپ نے جبریل علیہ السلام سے حاصل کی تھی۔ اس کا ظاہر اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ اگر کسی آیت میں آگ اور سزا کا تذکرہ ہے اور اس کے فوراً بعد جنت اور جزا کا تذکرہ ہے تو مناسب یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کے لئے وقف کیا جائے۔ اسی طرح اگر کسی آیت میں جنت اور بہترین جزا کا تذکرہ ہے اور اس کے فورا بعد جہنم اور سزا کا تذکرہ ہے تو لازم ہے کہ وہاں بھی ان کے درمیان فرق کرنے
[1] فضائل القرآن از ابن کثیر ص ۱۳۳.
[2] فتح الباری شرح صحیح البخاری ۹-۲۷.