کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 94
ہو ، کیونکہ قرآن کریم ایک قوم پر نازل ہوا تھا، جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی (لہٰذا یہ اجازت ایک مجبوری تھی۔) اور یہ اجازت قائم رہی ، تاآنکہ پوری امت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متفقہ فیصلہ سے ایک قرآن پر جمع ہو گئی۔اور اس اجازت کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ھلم کی بجائے تعال پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی طرح حدیث میں عزیزا حکیما کے بجائے غفورا رحیما پڑھنے کا جواز ثابت کرتا ہے کہ لفط کی بجائے اصل معنی کی حفاظت مقصود ہے،کیونکہ دونوں میں اللہ تعالیٰ کی تعریف پیش نظر ہے۔‘‘ [1] وہ مزید لکھتے ہیں: ’’پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خدشہ ہوا کہ اس رخصت سے اختلاف کا دائرہ وسیع ہو جائے گا۔ اور انہوں نے سوچا کہ اب اس رخصت کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ حفاظ قرآن کی کثیر تعداد موجود ہے ، جنہوں نے بچپن ہی سے اسے اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا ہے۔لہذا صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس اجازت کو سرے سے ختم کردیااور بالاتفاق یہ فیصلہ دیا کہ اب قرآن کو مترادف کی بجائے اس اصل لفظ پر نقل کیا جائے گا جس پر وہ نازل ہوا ہے۔ اور اس کے لئے اس قراء ۃ کو معیار قرار دیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریل امین علیہ السلام کو دو مرتبہ قرآن سنایا تھا۔‘‘ [2] لیکن جمہور علماء ،اسلاف ِامت اور قراء ۃ کے محققین نے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ صدر اول میں مترادف الفاظ میں قراء ۃ کی کوئی رخصت و اجازت امت کو قطعاً حاصل نہیں رہی۔ اور انہوں نے ان تمام روایات و آثار کا جواب دیا ہے ، جن میں اس قسم کا کوئی اشارہ موجود ہے۔امام ابن کثیرنے لکھا ہے کہ
[1] المرشد الوجیز، ص ۱۲۶. [2] المرشد الوجیز، ص ۸۹.