کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 93
بعذاب۔‘‘ [1] ’’ان میں سے ہر حرف شافی اور کافی ہے۔ اگر تم سمیعا علیما کے بجائے عزیزا حکیما پڑھ لو ( تو کوئی حرح نہیں ) بشرطیکہ آیت عذاب کا اختتام رحمت اور آیت ِ رحمت کا اختتام عذاب کے ذکر پر نہ ہو۔‘‘ ۳:… عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو پڑھایا: ﴿اِِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّومِo طَعَامُ الْاَثِیْمِ﴾ [الدخان: ۴۳۔۴۴] تو اس آدمی نے ’’طعام الیتیم‘‘ پڑھا۔ آپ نے بار بار دہرایا ، لیکن اس کی زبان پر نہ چڑھا تو آپ نے فرمایا: کیا تم ’’طعام الفاجر‘‘ پڑھ سکتے ہو ؟ اس نے کہا: ہاں ، پڑھ سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تو ایسے ہی پڑھ لو۔ [2] امام اعمش کا بیا ن ہے کہ کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس آیت: ﴿اِِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا﴾ [المزمل۷۳:۶] میں ﴿وَّاَقْوَمُ قِیْلًا﴾ کی بجائے ’’وأصوب قیلا‘‘ پڑھا تو کسی نے کہا: ابو حمزہ یہ تو ﴿اَقْوَمُ قِیْلًا﴾ [المزمل:۶] ہے تو جواب دیا: ’’إن أقوم وأصوب وأہیا واحد‘‘ امام ابو شامہ نے اس حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ایک ہی حرف کی پاپندی لازم نہیں تھی ، بلکہ انہیں الفاظ ِقرآن کو ایک حرف سے سات حروف تک مترادف الفاظ میں بدلنے کی اجازت تھی، تاکہ لوگوں کے لئے اس کو حفظ کرنے میں کوئی دشواری نہ
[1] مسند أحمد ۵-۱۲۴ ، سنن أبی داؤد ۲-۶۷ السنن الکبری للبیہقی ۲-۵۳۷۔ مسند احمد کے محقق شعیب الارناؤط نے اس روایت کی سند کو شرط شیخین پر صحیح قرار دیا ہے. [2] فضائل القرآن ، ابو عبید قاسم بن سلام ، ص ۳۱۱، اور امام حاکم نے اسے بیان کرنے کے بعدلکھاہے: ’’ یہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ، البتہ انہوں نے اسے نقل نہیں کیا۔‘‘ (المستدرک ۲-۴۸۹).