کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 92
اس نظریہ کے حاملین نے درج ذیل روایات سے استدلال کیا ہے: ۱:… ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان سات حروف میں سے ہر حرف کافی اور شافی ہے ،بشرطیکہ عذاب کی آیت کا اختتام رحمت پر اور رحمت کی آیت کا اختتام عذاب پر نہ ہو۔ جیسا کہ تم تعال کی جگہ أقبل ، اور ھلم کی جگہ أذھب ، اور أسرع کی بجائے عجل کے الفاظ استعمال کر لیتے ہو۔‘‘ [1] ۲:… حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ ، فَاقْرَئُوا وَلَا حَرَجَ، ولکن لَا تَختِموا ذکر رحمۃ بِعَذَابٍ، وَلَا ذکر عَذَابٍ بِرَحْمَۃ۔‘‘ [2] ’’قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ، تم پڑھو ، کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ خیال رہے کہ آیت ِرحمت کا اختتام عذاب سے اور آیت ِ عذاب کا اختتام رحمت کے تذکرہ پر نہ ہو۔‘‘ اور ایک روایت میں الفاظ ہیں: ’’لیس منہا إلا شاف کاف ، إن قلت:سمیعا علیما ، عزیزا حکیما ، مالم تختم آیۃ عذاب برحمۃ أو آیۃ رحمۃ
[1] مسند أحمد ۵-۴۱، مصنف ابن ابی شیبہ ۶-۱۳۸۔ امام سیوطی فرماتے ہیں:یہ الفاظ مسند احمد کی روایت میں جید سند کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ ۱-۱۶۸۔ اور امام ہیثمی نے لکھا ہے کہ امام احمد اور امام طبرانی نے اس روایت کو اس سے ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا ہے ، مگر انہوں نے أذہب اور أدبر کے الفاظ نقل کئے ہیں۔لیکن اس روایت میں علی بن زید بن جدعان سوء الحفظ راوی ہے ، البتہ اس کی متابعت موجود ہے اور مسند احمد کے دیگر راوی صحیح بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ ( مجمع الزوائد ۷-۶۲). [2] شرح مشکل الآثار ، الطحاوی ۸-۱۱۳ ، السنن الصغری للبیہقی ۱-۳۵۶۔ اور امام سیوطی نے الإتقان ۱-۱۶۸ میں اس کی سند کو جید قرار دیا ہے.