کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 91
ان میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘ [1]
اسی قسم کی بعض روایات وآثار سے یہ غلط رائے اور گمراہ کن فکر پیدا ہوئی کہ عرضہ اخیرہ سے پہلے سات حروف کے تناظر میں قاری کو معنی کی رعایت کرتے ہوئے کسی لفظ کو اس کے مترادف سے بدلنے کا اختیار حاصل تھا۔اور امام ابو شامہ ، امام طحاوی ، امام ابن عبد البر ، امام باقلانی اور بعض دیگر علماء کی طرف اس رائے کو منسوب کیا گیا ہے۔جیسا کہ امام باقلانی نے لکھا ہے:
’’آغاز ِاسلام میں ایک حرف کی جگہ اس کا مترادف دوسرا حرف استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ مثلاً علیم قدیر کی جگہ غفور رحیم استعمال کر لیا جاتا تھا۔لیکن بعد یہ اجازت بھی ختم کر دی گئی۔ رہا ایک لفظ کی جگہ اس کا متضاد استعمال کرنا ، مثلاً غفور کو شدید العقاب سے بدلنا، تو امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نزول ِقرآن کے کسی دور میں بھی اس کی اجازت نہیں رہی۔‘‘ [2]
اور امام عینی فرماتے ہیں:
’’اگر تم عزیزا حکیما کی جگہ سمیعا علیما کہہ دو یا اس کے برعکس سمیعا علیما کی جگہ عزیز ا حکیما کہہ دو تو یہ کافی ہے… اور یہ حکم مصحف عثمانی میں قرآن کریم کی ترتیب پر اجماع سے پہلے تھا۔ لیکن جب لوگوں کے لئے کسی بھی تبدیلی کی ممانعت پر اجماع ہو گیا تو اب کوئی بھی شخص دانستہ عزیز حکیم کی جگہ سمیع علیم یا اس طرح کی کسی بھی تبدیلی کا قطعا مجاز نہیں ہے۔ہاں البتہ اگر نادانستہ کسی کی زبان سے اس طرح کی غلطی سر زد ہو گئی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اگر نماز میں بھی بلاارادہ اس قسم کی غلطی سرز د ہو جائے تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔‘‘[3]
[1] التمہید از ابن عبد البر۸-۲۷۸.
[2] الإنتصار ، از باقلانی.
[3] شرح العینی علی سنن أپی داؤد ۵-۳۹۲.