کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 85
یحتملہ رسمہا من الأحرف السبعۃ فقط ،جامعۃ للعرضۃ الأخیرۃ التی عرضہا النبی علی جبریل متضمنۃ لہا لم تترک حرفا منہا۔‘‘ ’’ جمہور علمائے سلف و خلف اور ائمہ مسلمین کا موقف یہی ہے کہ یہ عثمانی مصاحف صرف انہیں سبعۃاحرف پر مشتمل ہیں جو ان مصاحف کے رسم الخط میں سما گئے ہیں۔اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جبریل امین علیہ السلام سے قرآ ن مجید کا جو آخری دور ہوا تھا ، اس کے تمام حروف ان مصاحف میں جمع ہیں۔عرضہ اخیرہ کا کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں ہے جو ان مصاحف میں شامل نہ ہوا ہو۔‘‘ ابن جزری نے مزید لکھا ہے: ’’قلت: وہذا القول ہو الذی یظہر صوابہ ، لأن الأحادیث الصحیحۃ والآثار المشہورۃ المستفیضۃ تدل علیہ ‘‘[1] ’’میرے نزدیک یہی قول ہر لحاظ سے صحیح ہے ، کیونکہ صحیح احادیث اور مشہور آثار اسی پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘ ذیل میں اس قول کے دلائل اور مخالفین کے اعتراضات کا جواب پیش کیا جا رہا ہے: ۱:… حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصاحف کو مدون کیا تو انہوں نے اس میں حروف سبعہ کا وہ تمام حصہ محفوظ کر دیا تھا جو عرضہ اخیرہ کے وقت باقی رکھا گیا تھا۔ اس کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ عثمانی مصاحف کے درمیان بعض الفاظ میں اختلاف موجود تھا۔ اگر قرآ ن مجید کو ایک لغت اور ایک حرف پر لکھا گیا ہوتا تو مصاحف عثمانیہ کے درمیان اختلاف نہیں ہونا چا ہیے تھا۔ ۲:… اور جہاں تک مخالفین کے اس استدلال کا تعلق ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کمیٹی کے قریشی ارکان سے یہ کہا تھا: ’’فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل
[1] النشر فی القراء ات العشر ، ابن جزری ۱-۳۱.