کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 83
یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے ان میں سے جس حرف کے مطابق چاہیں قراء ۃ کر سکتے ہیں۔۔۔اور ہر صحابی رضی اللہ عنہ کا ہر ہر حرف کو آگے نقل نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انہیں یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ سات حروف میں سے جس حرف کو چاہیں اختیار کر لیں۔‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’فلا قراء ۃ للمسلمین الیوم إلا بالحرف الواحد الذی اختارہ لہم إمامہم الشفیق الناصح دون ما عداہ من الأحرف الستۃ الباقیۃ۔‘‘ [1]
’’آج مسلمانوں کے اس ایک حرف کے سوا کوئی قراء ۃ جائز نہیں ہے ، جسے امت کے انتہائی شفیق وخیر خواہ امام نے منتخب فر مایا تھا۔ اور دیگر چھ حروف کی قرائۃ جائز نہیں ہے جنہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے ختم کر دیاتھا۔‘‘
دوسری رائے:
دوسری رائے وہ ہے جسے مکی بن ابی طالب ، ابن الجزری اور جمہور محققین علماء قراء ات نے اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سات حرو ف آج بھی اسی طرح باقی ہیں۔ ہاں البتہ ان میں سے بعض وجو ِہ قراء ات اور سبعہ احرف کی بعض جزئیات کو اس وقت ختم کر دیا گیا تھا جب آخری دفعہ جبریل امین علیہ السلام نے قرآن کریم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی کے مطابق قرآن کو جمع کیا تھا۔اور مصاحف کی ترتیب میں ایسا رسم الخط اختیار کیا گیا کہ ساتوں حروف اس میں سما سکیں۔ لہٰذا سبعہ احرف آج بھی پوری طرح محفوظ ہیں ، ماسوائے ان جزئیات کے جنہیں عرضہ اخیرہ کے موقع پر خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے منسوخ کر دیا گیا تھا۔چنانچہ مکی بن ابی طالب لکھتے ہیں:
[1] تفسیر الطبری۔ مختصراً۔ ۱-۶۴.