کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 81
میں صرف وہ قراء ات و آیات ختم کی گئی تھیں ، جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی۔دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ان حروف کو ختم نہیں کیا گیا۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے ، جنہوں نے بعض مصالح کے تحت امت مسلمہ کو ایک حرف ،یعنی لغت ِقریش پر جمع کیاتھا۔ ان کو ختم کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ مختلف وجوہ ِقراء ۃ کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلاف و تفرقہ کا خاتمہ ہو جائے ،کیونکہ اس اختلاف و انتشار کا خاتمہ سات حروف کی اجازت کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ سات حروف میں قراء ۃ کی رخصت امت کو یہ اختیار دیتی تھی کہ وہ سات حروف میں سے جس حرف کو چاہیں اختیار کر لے اور جس کو چاہے چھوڑ دے۔ چنانچہ امت نے اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک اجتماعی مصلحت کے تحت چھ حروف کو چھوڑ کر ایک حرف پر اتفاق کر لیا۔امام زرکشی البرہان میں امام قرطبی سے نقل کرتے ہوئے اسی اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پھر علماء کا اختلاف ہے کہ آیا سات حروف آج بھی باقی ہیں یا پہلے تھے ، بعد میں ختم کر دیئے گئے؟ ان دو اقوال میں سے مؤخر الذکر قول کو علماء کی اکثریت نے اختیار کیا ہے۔ ان میں سفیان بن عیینہ ، ابن وہب ، امام ابن جریر طبری اور امام طحاوی سرفہرست ہیں۔پھر ان کا اختلاف ہے کہ کیا یہ نسخ صلی اللہ علیہ وسلم نبی کی زندگی میں عرضہ اخیرہ کے موقع پر پیش آگیا تھا یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو ختم کیا تھا، اکثریت کا موقف یہ ہے کہ دیگر چھ حروف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی عرضہ اخیرہ کے موقع پر ختم کر دیئے گئے تھے۔ اس موقف کو قاضی ابو بکر بن الطیب ، ابن عبدالبر ، ابن العربی اور دیگر علماء نے اختیار کیا ہے۔ان کے نذدیک قرآن کریم صرف لغت قریش پر نازل ہوا تھا ، لیکن اہل عرب کی مختلف لغات، اور اپنی لغت کو چھوڑ کر کسی دوسری لغت کو اختیار کرنے کی مشقت کے سبب شروع میں امت کی آسانی کے خیال سے اپنی اپنی لغت میں قرآن کی تلاوت کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن بعد میں جب زبانیں لغت ِقرآنی کی عادی ہو گئیں اور لوگو ں کے