کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 80
میں ابن عبدالبر ، ابوبکر ابن العربی ، امام طبری اور امام الطحاوی سر فہرست ہیں۔ [1] اور امام مقریزی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’اس پوری بحث سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سات حروف کی اجازت آغازِ اسلام میں ایک خاص ضرورت کے تحت دی گئی تھی۔پھر جب یہ ضرورت ختم ہو گئی تو سات حروف کی اجازت بھی ختم کر دی گئی اور قرآن کی قراء ۃ دوبارہ ایک حرف پر بحال کر دی گئی۔ ‘‘ [2] نیزجن علماء کا موقف یہ ہے کہ سات حروف کی اجازت ختم کر کے ایک حرف کو باقی رکھا گیا تھا، ان کا آپس میں اختلاف یہ ہے کہ آیا یہ اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عرضہ اخیرہ کے موقع پر ختم کی گئی تھی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوری امت کو ایک حرف پر جمع کرنے کی غرض سے اجتہاد کرتے ہوئے یہ اجازت ختم کی تھی۔اس بارے میں دو آراء ہیں: بعض کا موقف یہ ہے کہ جبریل امین علیہ السلام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا آخری دور ایک حرف پر ہوا تھا ، جو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا حرف تھا۔اور باقی حروف ذات ِاقدس کی زندگی میں ہی منسوخ کر دیئے گئے تھے۔اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے امت کو اسی حرف پر جمع کیا تھا جو عرضہ اخیرہ کے وقت باقی رکھا گیا تھا۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس قول کو جمہور ائمہ ء سلف کی طرف منسوب کیا ہے۔[3] اور بعض کا موقف یہ ہے کہ قرآن کا آخری دور ساتوں حروف کے مطابق ہوا تھا۔ اس
[1] تفسیر الطبری ۱-۶۳، التمہید ، ابن عبد البر ۸-۲۹۴، شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص ۲۹۴. [2] إمتاع الأسماع بما للنبی من الأقوال۴-۲۷۱. [3] البرہان فی علوم القرآن ۱-۲۱۳، مناہل العرفان فی علوم القرآن ۱-۱۶۸، مجموع الفتاوی لإبن تیمیہ ۱۳-۴۰۱، الکلمات الحسان فی الأحرف السبعۃ وجمع القرآن للمطیعی، ص ۱۴۶.