کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 74
ان دلائل سے یہ تو ثابت ہو چکا کہ سات حروف میں قراء ۃ ِ قرآن کی اجازت ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد دی گئی تھی ، لیکن ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سات حروف نزولِ قرآن کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ میں نازل ہو گئے تھے اور پھر ان کی قراء ۃ کی باعدہ اجازت ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعددی گئی یا پہلے مکہ مکرمہ میں قرآن کریم ایک حرف پر نازل ہوا اور باقی حروف ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نازل ہوئے تھے؟ علمائے قراء ت کی اس بارے میں دو رائے ہیں: پہلی رائے:… بعض علماء کا موقف یہ ہے کہ مکی دور میں دعوت ِاسلام کے آغاز سے قرآن کریم لغت قریش کے مطابق ایک حرف پر نازل ہوا۔ پھر ہجرت کے بعد جب قریش کے علاوہ دیگر قبائل عرب بکثرت اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے تو ان کی آسانی کے لئے قراء ۃ کی اجازت کا دائرہ سات حروف تک وسیع کر دیا گیا۔ ان کی دلیل ایک تو وہ آثار ہیں جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ قرآن کریم لغت قریش پر نازل ہوا ہے۔ اور دوسری وہ روایات جن سے نزول ِقرآن کا تکرر (دوبارہ نازل ہونا) ثابت ہوتا ہے۔ امام ابو شامہ فرماتے ہیں: ’’میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس قول کہ ’’قرآن کریم قریش کی زبان میں نازل ہواہے۔‘‘ کا مطلب یہ سمجھتاہوں کہ ابتدا میں قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ، لیکن اس کے بعد سات حروف میں پڑھنے کی اجازت دے دی گئی۔۔۔ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایک ہی لغت میں قرآن پڑھاتے ، جس سے ان کو سخت دشواری ہوتی تو جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہر قوم کو ان کی لغت کے مطابق قرآن پڑھائیں۔ ۔۔یہی درست موقف ہے ،کیونکہ یہ اجازت دیگر قبائل ِعرب کی آسانی کے لئے دی گئی تھی۔‘‘ [1] ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] المرشد الوجیز ، از ابو شامہ ، ص ۹۶، ۹۷.