کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 73
دوسری روایت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:احجار المراء کے مقام پر میری جیریل امین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا: اے جبریل، میں ایک ناخواندہ امت کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ جس میں مردوں و عورتوں کے علاوہ بچے ، بچیاں اورایسے ضعیف العمر بوڑھے بھی ہیں کہ جنہوں نے کبھی کو ئی کتاب پڑھ کر نہیں دیکھی۔ تو جبریل علیہ السلام نے کہا: إن القرآن نزل علی سبعۃ أحرف۔ ’’بلاشبہ قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے۔‘‘ [1] مذکورہ دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سات حروف میں قراء ۃ کی اجازت ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دی گئی تھی۔ چنانچہ ابن حجر نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’یہ بات یقینا پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ سات حروف میں قرأء ۃ کی آسانی کا نزول ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے۔جیسا کہ ابی بن کعب کی حدیث سے واضح ہو چکا ہے کہ جبریل امین علیہ السلام کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات بنوغفار کے تالاب کے پاس ہوئی تھی اور بنوغفار کا تالاب مدینہ منورہ میں واقع ہے ،جہاں یہ قبیلہ آباد تھا۔ [2]
[1] فضائل القرآن ،از ابو عبید قاسم بن سلام ، ض ۳۳۸، مسند أحمد ۵-۴۰۰، مسند احمد کے محقق شعیب ارناؤؤط نے اس سند کو حسن اور اس روایت کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔اور امام طبری نے اپنی تفسیر ۱-۳۵میں اسے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بیا ن ہے اور امام ترمذی نے بھی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے حوالہ سے بیان کیا ہے ، لیکن اس میں احجار المراء کا ذکر نہیں ہے۔ (سنن الترمذی ۵-۴۴)اور امام مجاہد کے بقول أحجار المراء مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک جگہ کا نام ہے۔ یہ بات ان سے ابراہیم الحربی نے غریب الحدیث ۱-۱۰۴ میں ، ابن الجوزی نے غریب الحدیث۲-۳۵۵ میں ، اور ابن الأثیر نے النہایۃ فی غریب الحدیث ۱-۳۴۳ میں نقل کی ہے۔ نیز ابن منظور الأفریقی فرماتے ہیں: ہی بکسر المیم:قباء ، فأما المراء بضم المیم فہوا داء یصیب النخل۔ لسان العرب ۶-۴۱۸۸’’ یہ میم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہے ، جس سے مقام ِقباء مراد ہے۔ اور جہاں تک میم کے ضمہ ( پیش) کے ساتھ ’المُراء‘ کا تعلق ہے تو اس سے مرادایک بیماری ہے جو کجھور کے درخت کو لاحق ہوتی ہے۔‘‘. [2] فتح الباری ۹-۲۸.