کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 64
نظر رکھتے ہوئے ان کی آسانی کے لیے قرآن مجید کو سات حروف پرنازل کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ کے درمیان لغت کا اختلاف تھا۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جس لغت کے مطابق قرآن پڑھا تھا، ہشام کی قراء ۃ اس کے علاوہ کسی اور لغت کے مطابق تھی۔لیکن اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ وونوں قریشی ہیں ، پھر وہ لغت میں اختلاف کیوں کریں گے؟ تو اس کا یہ جواب دیا گیا کہ ہشام رضی اللہ عنہ نے در اصل اپنی لغت کی بجائے کسی دوسری لغت کے مطابق قراء ت کی تھی۔چنانچہ امام صفاقسی فرماتے ہیں: ’’دین میں آسانی کی تقاضا یہ تھا کہ قرآن کریم مختلف لغات پر نازل ہوتا۔ اس پر اگرتم یہ اعتراض کرو کہ پھر عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ نے سورۃ فرقان کی قراء ۃ میں کیوں اختلاف کیا ، حالانکہ وہ دونوں قریشی تھے، ان کی زبان ایک تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کا ایک قبیلہ سے تعلق کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں کی لغت اور لہجہ بھی ایک ہو۔ ہو سکتا ہے ایک شخص قریشی ہو ، لیکن اس کی پرورش اور تربیت کسی دوسرے قبیلہ میں ہوئی ہو۔ وہ ان کی زبان سیکھ لے اور اسی میں گفتگو کرے۔اورایسا ان کے ہاں اکثر ہوتا تھا۔جیسا کہ حدیث میں ہے: أنا أعربکم ، أنا من قریش ، ولسانی لسان سعد بن بکر’’میں تم سب سے زیادہ فصیح اللسان ہو۔ میں تعلق قریش قبیلہ سے ہے ، لیکن میری زبان قبیلہ سعد بن بکر کی زبان ہے۔‘‘ [1]
[1] غیث النفع للصفاقسی ، بہامش سراج القاری ، ص ۱۶۔ معجم الطبرانی الکبیر میں ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ان الفاظ میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أنا أعرب العرب ، ولدت فی بنی سعد فأنی یأتینی اللحن ‘‘’’میں عربوں میں سب سے زیادہ فسیح اللسان ہوں۔ بنی سعد میں میری پروش ہوئی ہے تو میری زبان میں لحن کہاں سے آسکتا ہے!! امام ہیثمی فرماتے ہیں: اس روایت میں مبشر بن عبید متروک راوی ہے۔ (مجمع الزوائد ۸-۱۵۵).