کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 63
دوسری لغت پر منتقل کرنا کافی مشکل ہوتا۔یہ وہ اسباب تھے جو اختلاف ِقراء ات کا باعث ہوئے تھے۔‘‘ [1] امام ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو صائب قرار دیا اور انہیں بتایا کہ یہ کوئی اختلاف نہیں ہے ،کیونکہ یہ سب قراء ات اللہ کی طرف سے ہیں ، اس کے حکم سے نازل ہوئی ہیں اور اس کے فضل و کرم سے اس کا دائرہ سات حروف تک وسیع کر دیا گیا۔‘‘ [2] امام اشمونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مختلف قبائل کے وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے ساتھ اس کی زبان کے حسب حال گفتگو کرتے۔ جس کی لغت میں مد ایک الف ، دو الف اور تین الف کے برابر ہوتی تو آپ اس کے مطابق ایک الف ، دو الف اور تین الف کے برابر مد کرتے۔ اگر مخاطب کی لغت میں تفخیم (کسی حرف کو موٹا پڑھنا )ہوتا تو آپ بھی تفخیم کرتے۔ اگر کسی کی لغت میں ترقیق (کسی حرف کو باریک پڑھنا)ہوتا تو آپ بھی اس کے مطابق ترقیق کا اصول ملحوظ خاطر رکھتے۔‘‘[3] یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ دونوں کی زبان ایک تھی تو پھر ان کے درمیان اختلاف کا سبب کیا تھا ؟اس کے بارے میں علماء کی دو آراء ہیں۔ قول اول:… علماء کے ایک گروہ کا موقف یہ ہے کہ سات حروف سے اہل عرب کی مختلف لغات میں سے سات لغات مراد ہیں۔ امت کی مختلف زبانوں ، وطن اور مختلف قبائل کو پیش
[1] المرشد الوجیز ، از ابو شامہ ص ۱۲۷. [2] أحکام القرآن لإبن العربی ۲-۶۱۲. [3] منار الہدی از أشمونی ص ۲۲.