کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 60
ان روایات میں غور کرنے سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین قرء ات میں اختلاف کے درج ذیل اسباب سامنے آتے ہیں: (۱)… صحابہ رضی اللہ عنہم کا مختلف اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہونا اور مختلف انداز سے سننا ،ان کے درمیان اختلاف کا باعث ہوا۔چنانچہ اکثر روایات میں صحابی یہ کہتا ہے: لم تقرئنیہا ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ قراء ۃ اس طرح نہیں پڑھائی۔‘‘تو ثابت ہوا کہ جب کوئی ایسی قراء ۃ ان کے سامنے پڑھی جاتی ، جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی ہوتی تھی تو وہ اس کا انکار کرتے اور جس سے سننے اس سے اختلاف کرتے۔امام باقلانی فرماتے ہیں: ’’اکثر لوگ یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سے احکام نازل ہوئے تھے، اگرچہ یہ لوگ ان احکام کی تفصیل سے واقف نہیں ہیں… کوئی شخص اگران تمام احکام کی بجائے بعض احکام کے بیان پر اکتفا کرتاہے تو یہ اس کے لئے جائز ہے… یقینا یہی سبب تھا جو أبی بن کعب ، عمر بن خطاب اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کی طرف سے بعض قراء ات کے انکار کاباعث ہوا تھا ، کیونکہ یہ قراء ت ان قراء ات سے مختلف تھیں جو انہوں نے خود رسول اللہ سے سنی تھیں۔ اور یہ دیگر قراء ات ان کے علم میں نہیں تھیں، کیونکہ ہر شخص تمام قراء ات کا حافظ نہیں ہوتا تھاکہ اسے ساتوں حروف کی تمام جزئیات پر عبور حاصل ہو۔نیزیہ بھی ممکن ہے کہ جس شخص کو انہوں نے کوئی مختلف قراء ۃ پڑھتے ہوئے سنا،اس کا ضبط وحفظ ان کے تئیں قابل بھروسہ نہ ہو۔ لہٰذا نہیں گمان ہوا کہ یہ شخص قرآن میں غلطی ، تحریف ، تساہل یا قراء ۃ بالمعنی (مفہوم کے مطابق قراء ۃ )کا مرتکب ہوا ہے۔اور بلاشبہ قرآن ان کی متاع ِحیات تھی ،وہ اس میں کسی قسم کی غفلت یا تساہل قطعاً برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘ [1] اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق خاص طور پر بیان ہوا ہے کہ اگر وہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس
[1] الإنتصار للقرآن ، از باقلانی ۱-۳۳۹.