کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 47
ابو عبید قاسم بن سلام نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ان الفاظ میں اس پر تبصرہ کیا ہے:
’’میں نے اس حدیث کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ اور میں پورے یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کا اس حدیث کا زیر بحث سبعہ أحرف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس حدیث کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں ہے کہ قرآن کریم سات قسم کے مضامین پر نازل ہوا ہے۔اس کے برعکس أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کی احادیث میں حروف کا سوائے لغات کے کوئی دوسرا مفہوم نہیں لیا جا سکتا۔کیونکہ اس سلسلہ کی ہر حدیث اپنے معنی میں بالکل واضح ہے اور اس کے سوا کوئی دوسری تاویل قبول نہیں کرتی۔آپ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ پر غور نہیں کرتے کہ’’ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کوسورۃ فرقان پڑھتے ہوئے سنا ، ان کا پڑھنے کا انداز میرے انداز سے مختلف تھا۔‘‘کیا ان الفاظ سے واضح نہیں ہوتا کہ ان کا اختلاف طرز ِقراء ت میں تھا، جس میں تلفظ اور آواز کا فرق ہوتا ہے؟جہاں تک تفسیر و معانی کا معاملہ ہے ، اس میں انہوں نے اختلاف نہیں کیا۔‘‘ [1]
امام طحاوی نے احمد بن عمران کے حوالہ سے لکھا ہے:
’’جن لوگوں نے سبعۃ أحرف کا مصداق سات قسم کے مضامین کو قرار دیا ہے ، ان کا نقطہ نظر فاسد ہے۔کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ان میں سے ایک حرف حرام ہو اور اس کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ یا حلال ہو اور اس کے سوا کچھ نہ ہو۔اور اس لئے بھی کہ بات قطعا جائز نہیں ہے کہ قرآن کو اس حیثیت سے پڑھا جائے کہ وہ سب کا سب حلال ہو یا اس حیثیت سے کہ وہ سب کا سب حرام یا اس حیثیت سے کہ وہ سب کا سب ضرب امثال ہو۔‘‘ [2]
امام ابو شامہ نے لکھا ہے:
[1] فضائل القرآن از القاسم بن سلام، ص ۳۴۶.
[2] امام ابن عبد البر نے یہ بات المؤطأ کی شرح التمہید ۸-۲۷۶ میں امام طحاوی سے نقل کی ہے۔ اور امام الزرکشی نے اسے البرہان ۱-۲۳۳ میں نقل کیا ہے.