کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 45
ابن مسعود، عمرو بن العاص اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی حدیث سے ثابت ہے۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر یا اس کے کسی شرعی مفہوم میں اختلاف نہیں کیا تھا ، بلکہ ان کا اختلاف حروف کی قراء ۃ اور اس کے طرز ِادا کے سلسلہ میں تھا۔‘‘ [1]
اور جہاں تک تعلق ہے عمر بن أبی سلمہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا :
’’إن الکتب کانت تنزل من السماء من باب واحد وإن القرآن أنزل من سبعۃ أبواب علی سبعۃ أحرف:حلال وحرام ، محکم ومتشابہ، وضرب أمثال وآمر و زاجر، فحلَّ حلالہ وحرم حرامہ واعمل بمحکمہ وقف عند متشابہہ واعتبر أمثالہ ،فإن کلا من عند اللّٰه وما یتذکر إلا أولو الألباب۔‘‘ [2]
’’پہلی آسمانی کتابیں ایک باب سے ، ایک حرف پر نازل ہوئی تھیں ،لیکن قرآن کریم سات ابواب سے سات حروف پر نازل ہوا(اور وہ سات حروف یہ
[1] النشر فی القراء ات العشر۱-۲۵.
[2] المعجم الکبیر للطبرانی ۹-۲۶، اور قاسم بن سلام نے فضائل القرآن ۱-۱۱۰ میں اسے راشد بن سعد کے طریق سے مرفوع ذکر کیا ہے۔اور امام طبری نے اپنی تفسیر ۱-۹۶میں اسے قاسم بن عبدالرحمن عن ابن مسعود کے طریق سے موقوف ذکر کیا ہے۔اور امام ابن کثیر نے اسے ابن جریر طبری سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اللہ بہتر جانتا ہے ،لیکن بظاہریہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کلام معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (فضائل القرآن از ابن کثیر ، ص ۱۲۱) اور امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ حدیث صحیح ثابت نہیں ہے ، کیونکہ اسے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، حالانکہ ابو سلمہ کی ملاقات ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی۔ اور متعدد اہل ِفکر ونظرنے بھی اس حدیث کو مسترد کر دیا ہے۔التمہید از ابن عبد البر۸-۲۷۶، اور امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے المستدرک ۱-۷۳۹ میں نقل کرنے کے بعدلکھا ہے: ’’ اس کی سند صحیح ہے ، البتہ بخاری اورمسلم نے اسے بیان نہیں کیا۔لیکن امام ذہبی نے مستدرک حاکم کی تعلیق میں اسے منقطع قرار دیا ہے۔اور امام ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری:۹-۲۹ میں امام حاکم کی تصحیح کو ابو سلمہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع کی وجہ سے محل نظر قرار دیا ہے.