کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 38
کے معاملہ پر تنازع ہوا اور وہ انہیں پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا: انہیں چھوڑ دو ، اور پھران دونوں کی قراء ۃ کو درست قرار دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا ہے۔اور جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس حقیقت کا علم ہو گیا تو اس کے بعدان کے درمیان کبھی قراء ات کے سلسلے میں کوئی تنازع نہیں ہوا۔
مکی بن ابی طالب نے لکھا ہے:
’’عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے ساتھ نزاع تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔جب یہ مقدمہ رسول اللہ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے ان کی قراء ۃ سنی اور دونوں کی قراء ۃ کو درست قرار دیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس طرح رسول اللہ سے سیکھتے ، اسی کے مطابق قراء ۃ کرتے اور ان میں کوئی کسی کی قراء ۃ کا انکار نہیں کرتا تھا۔‘‘ [1]
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں مسجدمیں تھا۔ ایک آدمی اندرداخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا۔ اس نے جو قراء ت پڑھی، وہ میں نہیں جانتا تھا۔ پھردوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا، اس نے جو قراء ت پڑھی، وہ پہلے شخص کی قراء ت سے مختلف تھی۔جب ہم نماز پڑھ چکے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اس شخص نے جس قراء ت میں قرآن پڑھا ہے،وہ میرے لیے بالکل نئی ہے اور یہ دوسرا شخص، اس کی قراء ت اپنے ساتھی کی قراء ت سے مختلف ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اب پڑھو۔ انہوں نے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قراء ت کی تعریف کی۔ یہ سن کر میرے دل میں تکذیب کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی جو شاید دورِجاہلیت میں بھی نہیں تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کیفیت میں مبتلا
[1] اور حضرت عثمان کے دور حکومت میں آذربائیجان اور آرمینیہ کے مقام پر جو تنازع کھڑا ہوا تھا ، اس کی وجہ بھی درحقیقت یہی تھی کہ ان لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہیں تھا کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے.