کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 36
نے ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ﴾ کو بغیر مد کے پڑھا تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ اس طرح نہیں پڑھایا۔آپ کو کس طرح پڑھایا ہے ؟ اس نے پوچھا۔ فرمایا:مجھے آپ نے ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ﴾ مد کے ساتھ پڑھایا ہے۔ [1]
چہارم اصول:…
قرآن کریم کو سات حروف اور مختلف قراء ات پرنازل کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ قراء ت میں توسع کے ذریعے افرادِ امت کے لئے آسانی پیدا کی جائے۔ کیونکہ پوری امت کو ایک ہی حرف کے مطابق قراء ۃ کرنا کافی مشکل ہوتا۔اس کی دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’’فاقرء وا ما تیسر منہ ‘‘
’’ ان میں سے جو تمہیں آسان معلوم ہو ، اس کے مطابق پڑھ لو۔ ‘‘
نیز سبعہ أحرف کی روایات میں تعددِّ قراء ات کا جو فلسفہ بیان ہوا ہے ، وہ یہی ہے کہ امت ، خصوصاًاہل عرب کے مختلف قبائل کے لئے قرآن کی قراء ۃ میں آسانی کی راہ ہموار کی جائے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار عرض کی:’’ میں اللہ سے معافی اور مغفرت کا خواستگار ہوں ، بلاشبہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی۔‘‘ [2]
اور آپ کا بیان ہے کہ میں نے کہا:’’جبریل !مجھے ایک ان پڑھ قوم میں نبی بنا کر بھیجا
[1] سنن سعید بن منصور ۵-۲۵۷، المعجم الکبیر للطبرانی ۹-۱۳۷۔
امام ابن جزری نے اس روایت کو ذکر کرنے کے لکھا ہے: ’’یہ حدیث مد کے باب میں حجت(Authority) اور نص کا درجہ رکھتی ہے اور اس کی سند کے تمام راوی قابل اعتماد اور ثقہ ہیں۔ ‘‘ (النشر فی القراء ات العشر ۱-۳۱۵).
[2] صحیح مسلم ، کتاب ، صلاۃ المسافرین و قصرھا ، باب: بیان أن القرآن علی سبعۃ أحرف ۲-۲۰۳، سنن أبی داؤد ، کتاب: الصلاۃ ، باب: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ۲-۷۶، سنن النسائی ، کتاب:الإفتتاح ، باب: جامع ما جاء فی القرآن ۲-۱۵۲۔
اورابن حبان نے اس حدیث کا ترجمہ (عنوان ) ان الفاظ میں (قائم)کیا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب معافی اور مغفرت کی درخواست کیوں کی تھی؟ (صحیح ابن حبان۳-۱۴).