کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 22
عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ اور قراء ات میں ان کا کردار
آپ کا نام ونسب عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزی القرشی العدوی ، امیر المؤمنین، الفاروق ہے۔ نبوت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب تاریخ اسلام کا سنہرا باب ہے۔ [1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے فرمایا تھا:
’’ إِنَّ اللّٰهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ۔ ‘‘ [2] ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دل اور زبان پر حق جار ی کر دیا ہے۔ ‘‘
اور فرمایا:
’’ اقْتَدُوا بِالَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ۔ ‘‘[3]
’’میرے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرنا۔‘‘
عمر فاروق رضی اللہ عنہ حق کے معاملے میں صاحب حمیت اور دین کے معاملے میں انتہائی غیرت مندواقع ہوئے تھے ،جس کی گواہی خود رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دی:
’’ أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهَا فِي دِينِ اللّٰهِ عُمَرُ۔ ۔‘‘[4]
’’میری امت میں میری امت کے ساتھ سب سے بڑھ کر رحم دل ابو بکر رضی اللہ عنہ
[1] سیر أعلام النبلاء:۲-۳۹۷.
[2] سنن أبی داؤد ، باب فی تدوین العطاء ۲۹۶۱؛سنن الترمذی ، باب فی مناقب أبی حفص عمر ،۵-۶۱۷۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔اور امام حاکم نے مستدرک میں اس حدیث کو شرط شیخین پر اور امام ذہبی نے شرط مسلم پر صحیح قرار دیا ہے۔ ۳-۹۳، مسند احمد ۵-۱۷۷.
[3] سنن الترمذی ، باب مناقت أبی بکر الصدیق، امام ترمذی نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ ۶-۵۰، مسند أحمد ۶-۵۰، مستدرک حاکم ۳-۷۹ ،امام ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے.
[4] سنن ابن ماجہ۱-۵۵ ، رقم ۱۵۴؛ السنن الکبری للبیہقی ۶-۳۴۵، مسند أجمد ۳-۱۸۴، مسند کے محقق شعیب ارناؤط نے اس روایت کو شرط شیخین پر صحیح قرار دیا ہے.