کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 133
سبعۃ أوجہ ، فالجواب:أن غالب ذلک إما لا یثبت الزیادۃ وإما أن یکون من قبیل الإختلاف فی کیفیۃ الأداء ، کما فی المد والإمالۃ ونحوہما۔ ‘‘ [1] ’’صحیح بخاری کا یہ باب کہ قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ قرآن کو سات وجوہ پر نازل کیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی بھی وجہ (انداز)پرتلاوتِ قرآن کی اجازت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کے ہر کلمہ اور جملہ کو سات انداز سے پڑھا جا سکتا ہے ،بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر کلمہ میں زیادہ سے زیادہ جو طرز ادا ہو سکتی ہیں ،ان کی تعداد سات ہے۔اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بعض ایسے کلمات بھی ہیں جنہیں سات سے زیادہ مختلف انداز سے پڑھا جا سکتا ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی زیادہ تر قراء ات یا تو صحیح ثابت نہیں یا پھر اس اختلاف کا تعلق طرز ادائیگی ، جیسے مد ، امالہ وغیرہ سے ہے۔‘‘ راقم کے نقطہ نظر سے یہ تقریبا ً وہی موقف ہے جو ڈاکٹر عبد الفتاح القاری نے اختیار کیا ہے، بلکہ سبعۃ احرف کے موضوع پر قلم اٹھانے والے اکثر مصنّفین مثلاً ، ڈاکٹر حسن ضیاء عتر وغیرہ نے تلاوت اور طرز ادا کے معمولی فرق سے اسی موقف کی تائید کی ہے ، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔
[1] فتح الباری شرح صحیح البخاری ۹-۴۳۴.